حالیہ دنوں میں پاک سعودی تعلقات کی ایک اور بہترین مثال سامنے آئی ہے سعودی عرب نے پاکستان کی مالی معاونت کے لئے تین ارب ڈالر کی خطیر رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی ہے تا کہ پاکستان کی معیشت کو سہارا ملے اور پاکستان کے زرِ مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر میں اضافہ ہو سکے ہیں جب کہ سعودی عرب سالانہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر مالیت کا تیل ادھار کی بنیاد پر پاکستان کو فراہم کرے گا۔ پاکستان اورسعودی عرب کے تعلقات کا اپنا پس منظر ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے انتہائی قریبی تعلقات قائم چلے آ رہے ہیں۔ دونوں ملک اس قدر قریب ہیں کہ ایک ساتھ سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ پاکستان کی مشکل کی ہر گھڑی میں سعودی عرب حکومت اور وہاں کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ہماری ہر مصیبت کو وہ اپنی مصیبت سمجھتے ہیں، زلزلہ ہو یا سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا کوئی اور قدرتی آفت، سعودی حکومت سب سے پہلے دست و تعاون دراز کرتی ہے۔ پاکستان کے دفاعی مسائل ہوں، معیشت کی زبوں حالی ہو، ان مشکلات پر قابو پانے کے لئے وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی معاملہ ہو برادر اسلامی ملک سعودی عرب انتہائی خاموش مگر تیز رفتاری سے متحرک ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب کو پاکستان کا مفاد مقدم ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان عالمِ اسلام کے قلعے کی حیثیت رکھتا ہے، یہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے اور اسلامی امہ کو پاکستان کے استحکام سے حوصلہ ملتا ہے۔ سعودی عرب کی یہ ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ پاکستان کے استحکام، اس کی آزادی اور خود مختاری پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ و قابلِ اعتماد دوستانہ مراسم اور گرمجوش تعلقات سے کسی کو انکار نہیں۔ سرد و گرم ہر دو موسموں میں سعودی عرب نے قدم قدم پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاکستان میں برسرِ اقتدار آنے والے سول و عسکری حکمرانوں سے سعودی بادشاہوں کے ہمیشہ خصوصی مراسم رہے ہیں اور بوقت ضرورت گاہے بہ گاہے وہ پاکستانی قیادت کے ساتھ پر خلوص تعاون اور دوستی کے باوقار رشتے کو پورے اعتماد و یقین کے ساتھ نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب ہمیشہ اور ہر موقع پر پاکستان کی خفی و جلی مدد کرتا آیا ہے، گہرے تعلقات کی بناء پر پاکستان سعودی عرب کی سلامتی کو بہت اہمیت دیتا ہے لہٰذا کوئی بھی صورت ہو پاکستان اپنے آپ کو سعودی معاملات سے الگ تھلگ نہیں کر سکتا ہے۔ اسی لئے وزیرِ اعظم پاکستان نے سعودی عرب کے دورے کے دوران ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی سا لمیت کے معاملے پاکستان اس کے ساتھ ہے۔ ایسے میں جب یمن کے حالات کی وجہ سے سعودی عرب مشکلات کا شکار ہے وزیرِ اعظم کا بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
پاک سعودی تعلقات مضبوط اور مستحکم ہیں، دونوں ملکوں کے تعلقات گہرے تزویراتی، اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امتِ مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ہمارے سعودی عرب سے اس قدر تہہ در تہہ تعلقات ہیں کہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر مکمل انحصار ہے۔ فوجی، اقتصادی، افرادی، سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات یعنی ہر اعتبار سے دونوں ملک ایک دوسرے کے از حد قریب ہیں۔ ان تعلقات کی گہرائی اور مضبوطی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے، لیکن ماہرین کی عمومی رائے ہے کہ امریکہ کے بعد سعودی عرب کی کوئی مدد کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہے۔ اس قریبی تعلق کی وجہ سے پاکستان سعودی عرب کے کسی بھی معاملے میں غیر جانبدارانہ پوزیشن نہیں لے سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امتِ مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی تھی جس سے دونوں ملکوں کے مابین کچھ تلخیاں بھی پیدا ہوئی تھیں لیکن وزیرِ اعظم کے اس دورے سے اس میں بہتری ہوئی ہے اور باہمی اختلافات اور دوریاں پیدا کرنے کی کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سعودی عرب کے حالیہ مالی پیکیج کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اس سے نہ صرف ملکی معیشت کو تقویت حاصل ہو گی بلکہ روپے کی قدر میں استحکام لانے میں مدد بھی ملے گی۔