رمضان المبارک کا آخری عشرہ اللہ کے وعدوں کو سمیٹے رخصت ہوا۔ اس خاک کے پتلے کے اندر کی تاریکی اور ویرانی دور کرکے اسے نئے روحانی سال کے لیے نور عطا کرنے اور قرآن کی بہار سے گل وگلزار کھلا دینے کے سارے اسباب فراواں کیے جاتے ہیں۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں، راہ دکھلائیں کسے راہ رو منزل ہی نہیں! ملکی روحانی فضا زیادہ دل خوش کن نہ تھی۔ سیاست سے اٹھتے دھوئیں نے، زبانوں سے اگلتے شعلہ بیان مقرروں والے جلسوں نے، ماحول میں چنگاریاں بھر رکھی تھیں۔ بڑے شہروں میں ہونے والے جلسوں میں سر شام قبل از افطار ہی جلسہ گاہوں میں ٹھٹھ لگنا شروع ہو جاتے رہے۔ نماز باجماعت، قرآن، اذکار مغفرت کے عشرے کے لوازم، قوتِ روحانی سمیٹنے کے اسباب کہاں تلاش کیے جاتے۔ مخلوط ڈی جے جلسوں میں؟ عشاء اور تراویح کا کیا تذکرہ۔ تاہم شیریں مزاری نے اسی تناظر میں یہ ستم ظریفانہ بیان داغا کہ عمران خان کے جانے پر ’اسلام دشمن‘ خوش ہیں! گزشتہ چند مہینوں میں جو اسلام (علاوہ از ’ریاست مدینہ‘ کی تکرار کے) متعارف کرایا جا رہا ہے۔ نت نئی اصطلاحیں ’زنگی (حبشی) کا نام کافور‘ (سفید، گورا چٹا) نوعیت کی گھڑی جا رہی ہیں۔ حد شکن جلسوں پر ’امر بالمعروف‘ کے لہراتے بینر۔ اسی دوران موٹیویشنل تحریروں اور تقریروں والی ایک محترمہ نے یہ دیدہ دلیرانہ فرمان جاری کیا کہ ڈپریشن تو دماغ کو ہوتا ہے اور الا بذکراللہ… (دلوں کو اطمینان/ سکون اللہ کی یاد سے ملتا ہے) والی آیت تو دل سے متعلق ہے۔ سو یہ ڈپریشن کا علاج نہیں ہے۔
تفنن برطرف۔ چکرائے ہوئے اعصاب اور دل شکستگی کے عالم میں ہم نے اوسان بحال کرنے کو نئے پرانے پاکستان اور ریاست مدینہ کے جھوٹے سچے لیبل کے مخمصے سے نکلنے کو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کتاب اٹھائی۔ وہاں اصل منظر ایک اسلامی معاشرے کی جگمگاتی تصویر لیے فریب اور دجل، انتشار اور افتراق کو حرف غلط کی طرح مٹا دینے کو بہت کافی تھا۔ آئیے آپ بھی ماحولیاتی آلودگی کی اس دھند سے نکل کر ریاست مدینہ کے الصادق والامین حکمران محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں امانت ودیانت کے پیمانے دیکھیے۔ قیامت تک کے لیے کسوٹی یہی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو سلیم کی زکوٰۃ پر ایک آدمی کو عامل (افسر) بنایا جسے ابن لتبیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ وہ زکوٰۃ وصول کرکے واپس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حساب مانگا۔ وہ بولا: ’یہ رہا آپ کا مال اور یہ (میرے) تحائف ہیں۔‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراض ہوکر فرمایا: ’تم واقعی ان تحفوں کے حقدار تھے تو اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہے کہ یہ تحفے تمہیں وہاں پہنچ جاتے؟‘ پھر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے خطاب کیا اور فرمایا: ’ اللہ نے مجھے جن امور کا ذمہ دار بنایا ہے، ان میں سے کوئی کام میں ایک آدمی کے سپرد کرتا ہوں۔ (یاد رہے کہ آپؐ نبی اور حکمران بناکر بھیجے گئے تھے زمین پر تمام شعبہ ہائے زندگی کے احکام الٰہی نافذ کرنے کے لیے۔ قرآن صرف تلاوت، یا مردے بخشوانے کی کتاب نہ تھی تعلیم تربیت تزکیے اور دنیا پر اللہ کے دین کو نافذ کرنے کا آئین ہے!) وہ آدمی کام نمٹاکر آتا ہے اور کہتا ہے: ’یہ رہا آپ کا مال اور یہ تحائف ہیں جو مجھے پیش کیے گئے ہیں۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہا کہ یہ تحفے اسے وہاں پہنچتے؟ واللہ! تم میں سے جو کوئی ایک چیز ناحق قبول کرے گا، وہ روز قیامت اس شے کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے اللہ کے روبرو آئے گا۔ میں اس شخص کو ضرور پہچان لوںگا جو ایک بلبلاتا اونٹ یا ڈکراتی گائے یا منمناتی بکری (آج کی بولتی گھڑیاں، لینڈ کروز، بی ایم ڈبلیو وغیرہ وغیرہ۔) کندھوں پر اٹھائے اللہ کے دربار میں آئے گا۔‘ یہ کہہ کر آپؐ نے دونوں ہاتھ بلند فرمائے… اور پکارا: اے اللہ! کیا میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا؟ راوی کہتا ہے کہ میری آنکھ نے دیکھا اور میرے کان نے (یہ پیغام) سنا۔( بخاری، مسلم) ہم گواہ ہیں کہ یہ پیغام حرفاً حرفاً سیدنا ابو حُمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہم تک پہنچ کر اتمام حجت کرچکا۔ یہ معیار ہے ’ریاست مدینہ‘ (کل اور آج) کے ہر حاکم، والی، عامل سول ملٹری ملازم کے لیے! رمضان المبارک اللہ کے دربار میں ہمیں تنہا بے یار ومددگار بلاحاجب وترجمان حاضری، تلاوت قرآن اور تراویح میں سماعت قرآن کے ذریعے یاد دلاتا ہے۔ ہماری تعلیم میں ہر شعبۂ زندگی کے اوامر ونواہی کو (مذکورہ حدیث کی مانند) نصاب بناکر امت کے افراد کے اندر اتارنا فرض ہے۔ اور یہی حکومتوں کا قرض ہے جو ادا نہ ہوتے رہنے سے آج ہم سر تا پا بدعنوانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تحائف کے پردے میں رشوت سکہ رائج الوقت ہے۔ آخرت پر ایمان وینٹی لیٹر پر ڈالے جانے کی حالت کو پہنچا ہچکیاں لے رہا ہے۔ اور گلے پھاڑ پھاڑکر ہر ایک اپنی امانت ودیانت کے خود ہی قصیدے بیان کرتا ہانپ رہا ہے! (یہ قصہ 74 برس پر محیط ہے الاماشاء اللہ)
یاد رہے کہ ’توشہ‘ کے معنی زاد راہ کے بھی ہیں۔ قرآن یاد دلاتا ہے: ’زاد راہ ساتھ لے لو۔ اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔‘ تقویٰ؟ ہر خوف سے بڑھ کر اللہ کا خوف۔ اس کے حضور حاضری اور جواب دہی کا خوف۔ یہ ہے توشہ، جس کے لیے اللہ نے رمضان کے روزے فرض کیے۔ قرآن وسنت کی روحانی تربیت بروئے کار لاکر رکھے جانے والے روزے اور راتوں میں تراویح پچھلے تمام گناہوں کی معافی کا وعدہ لیے ہیں۔ مگر پورا ملک رب تعالیٰ کی حکم عدولی بھرے جلسوں کے مناظر دکھا رہا ہے۔ توشہ، توشہ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ دنیا کی رسوائی کا خوف تو ہے، آخرت کے مناظر پیشِ نظر نہیں ہیں۔
اسلام میںعوام کے مال (قومی اثاثہ جات/ خزانہ) کا تقدس اتنا بے پناہ ہے کہ خلافت راشدہ کے واقعات نگاہ خیرہ کن ہیں۔ حکمرانوں کی امانت ودیانت انسانی تاریخ میں بے مثل ہے۔ امیر المومنین کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ نے اپنا اونٹ رفاہی چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ جب وہ موٹا ہوگیا تو بازار بیچنے کے لیے گئے۔ سیدنا عمرؓ کو خبر ہو گئی۔ حکم دیا کہ اپنے اونٹ کی اصل قیمت لے لو اور منافع مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کرا دو کیونکہ چراگاہ رفاہ عامہ کی ملکیت تھی اور تم امیر المومنین کے بیٹے ہو! سیدنا عمرؓ کے پاس بحرین سے کستوری اور عنبر آیا۔ انہوںنے فرمایا کہ میری تمنا ہے کہ بہترین وزن کرنے والی کوئی عورت مل جاتی تو خوشبو تول دیتی اور میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دیتا۔ آپ کی بیوی عاتکہؓ نے کہا کہ میں بہت اچھا وزن کر دیتی ہوں مجھے دیجیے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: نہیں! مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم ہاتھ میں لگی ہوئی خوشبو کو سر اور گردن پر نہ لگالو اور میں اس طرح دیگر مسلمانوں سے زیادہ حصہ نہ پا جاؤں! انہیں ادنیٰ ترین شبہ اللہ کے ہاں احتساب سے ڈراتا ہے۔ وہاں نیب عدالتیں ان کے ضمیروں نے زیادہ کڑی لگا رکھی تھیں! روم سے جنگ بندی کے بعد حضرت عمرؓ نے اپنے قاصدوں کو ڈاک دے کر شاہ روم کے پاس بھیجا۔ اس ڈاک کے ساتھ آپ کی زوجہ ام کلثومؓ (بنت علیؓ ابن ابی طالب) نے ملکۂ روم کو خوشبو، اور کچھ زیورات کا ہدیہ بھیجا۔ ملکہ روم نے قاصد کی واپسی پر ام کلثومؓ کو قیمتی ہار بطور ہدیہ بھیجا۔ سیدنا عمرؓ نے قاصد کو ہدیہ دینے سے روک دیا۔ لوگوں کو بلوایا۔ دو رکعت نماز پڑھائی اور پورا واقعہ مشورہ طلب کرنے کو عوام کے سامنے رکھ دیا۔ لوگوں نے اسے حضرت ام کلثومؓ (خاتونِ اول) کا حق قرار دیا کیونکہ ان کے ذاتی ہدیے کے بدلے میں یہ تحفہ آیا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا، قاصد تو تمام مسلمانوں کا تھا اور خاص انہی کی ڈاک لے کر گیا تھا۔ چنانچہ آپؓ نے وہ ہدیہ بیت المال (توشہ خانے!) میں جمع کرا دیا اور ام کلثومؓ کو ان کی خرچ ہوئی رقم کا عوض دے دیا! یہاں ہار اور گھڑیوں کے افسانے ملاحظہ ہوں!
یہ ہے ریاست مدینہ کا حقیقی ماڈل۔ نیچے حکومتی اہلکاروں اور عوام میں خیانت اسی وقت اترتی ہے جب خود حاکم خزانے پر دست درازی کرتا ہے۔ خلفائے راشدین کے ہاں اپنے گھر والوں پر حکومتی اموال اور مناصب کے حوالے سے بے پناہ سختی تھی۔ اللہ کے حضور جوابدہی کے خوف نے پوری مملکت کو عدل وانصاف اور معاشی استحکام عطا کر رکھا تھا۔ سیدنا علیؓ نے حضرت عمرؓ بارے یہ گواہی دی: ’تو پاک دامن رہا اس لیے تیری رعایا بھی پاک دامن رہی۔ تو اگر حکومت کا مال کھاتا ہے تو رعایا بھی کھاتی۔‘ یہاں ہر حکومت کے جانے کے بعد راز کھلنے لگتے ہیں تو سبھی کے شفافیت کے دعوے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ابھی تو صرف فرح بی بی اور بزداری سلسلے وا ہوئے ہیں۔ توشہ خانے سے امانت ودیانت کا ایکسرے ہاتھ آیا ہے۔ لائقِ افسوس تو قوم کی کھوکھلی جذباتیت ہے۔ ’کتا کان لے گیا‘ والی حکایت کے مصداق ریوڑ بن کر نعروں پر بے سوچے سمجھے دوڑ لگا دینے کی ہے۔ ایمان وایقان، فہم وتدبر سے عاری سوشل میڈیا کے اسیر!
نہ کہیں لذتِ کردار نہ افکارِ عمیق… معجزوں کا انتظار کیجیے۔