شکر ہے ایک تماشا ختم ہوا اور حمزہ شہباز شریف نے وزیراعلی پنجاب کا حلف اٹھا لیا۔ اس سے پہلے ایک بار پھر عمر سرفراز چیمہ اور پرویز الہی نے معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ حلف اٹھانے کے حوالے سے ایک انٹرا کورٹ اپیل بھی دائر کی گئی اور عمر سرفراز چیمہ نے تکنیکی بنیادوں پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ اعتراض کے ساتھ واپس کر کے اسے ایک بار بحال کرنے کی کوشش کی۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق جس طرح کی حرکتیں کر رہی ہے اس پر ہنسی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ کاش ان کی سیاسی تربیت ہوتی تو آج یہ معاملات نہ ہوتے۔ تحریک انصاف نے ملک میں جو طوفان بدتمیزی شروع کر رکھا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو پھر ریاست کے تمام ادارے ان کی آمرانہ سوچ کا شکار ہو جائیں گے۔ گورنر اور صدر نے بار بار عدالت کے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں گورنر کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دیا۔ ہائیکورٹ نے سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت کی تھی کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سے حلف لیں۔عدالت کے احکامات کے تحت نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لیا۔
حمزہ شہباز 16 اپریل کو 197 ووٹ کے ساتھ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، تاہم گورنر پنجاب عمر سرفرازچیمہ نے ان سے حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدارنے وزیر اعظم کو استعفیٰ دیا تھا جس کے بعد استعفیٰ منظور نہیں کیا جاسکتا اور یہ غیر آئینی تھا۔گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور ’حقائق‘ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر کو خط لکھتے ہوئے سیکریٹری کی رپورٹ پر ان کا بیانیہ طلب کیا، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور دیگر حقائق کے بعد حلف برداری کی تقریب منعقد کرانے کے حوالے سے ان ذہن تذبذب کا شکار ہے۔
حمزہ شہباز کی جانب سے حلف اٹھانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا، تاہم دو بار عدالتی فیصلوں کے باوجود بھی حمزہ شہباز سے حلف نہیں لیا گیا تھا۔ 21 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے صدر عارف علوی کو ہدایت جاری کی تھی کہ گورنر پنجاب موجود نہیں تو حمزہ شہباز کی حلف برداری کے لیے نمائندے اور جگہ کا تعین کیا جائے۔گورنر پنجاب اور صدر مملکت کی جانب سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد میں ناکامی پر حمزہ شہباز نے ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ سے مداخلت کی استدعا کی تھی۔تیسری درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے شہریوں اور حمزہ شہباز کے بنیادی حقوق کے لیے ہائی کورٹ معاملے میں مداخلت کرے اور صوبے کو آئینی طریقے سے چلانے کے لیے حلف لینے کا حکم دیا جائے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی استعفیٰ طلب کر لیا گیا تھا۔ عثمان بزدار کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور چودھری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار تھے۔اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کے کچھ اجلاس ہنگامہ آرائی کا شکار ہوکر ملتوی ہوگئے تھے تاہم، بعدازاں عدالتی حکم پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت اجلاس میں 16 اپریل کو حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے آج صدر مملکت اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ ان کی حکومت کو غیر ملکی سازش کے ذریعے ہٹایا گیا تھا اس لیے وہ معاملے کی کھلی انکوائری کرائیں۔ غیر ملکی سازش کا بیانیہ بنا کر عمران خان اپنی حکومت کی نااہلی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ میرا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ اس مسئلہ پر ازخود نوٹس لے کر انکوائری کا حکم دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
موجودہ حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بن گئی ہے ان حالات میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کی آخری حد تک کوشش کریں۔ اگر وہ یہ نہ کرسکے تو عمران خان جو بیانیہ بنا رہے ہیں اسے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اور آخر میں مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ کی جس طرح توہین کی گئی اور جو عناصر اس میں ملوث ہیں بحیثیت قوم ہمیں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے اور سعودی عرب کی حکومت کے ساتھ مل کر اس کی مکمل انکوائری کرائیں تاکہ اس میں ملوث عناصر کو سزا دی جا سکے۔مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ میں وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں آنے والے وفد کے بعض ارکان پر نعرے بازی اور جسمانی حملہ کرنے پر سعودی حکام کی جانب سے پاکستانی زائرین کے خلاف فوری کارروائی اور واقعے کی بڑے پیمانے پر مذمت کے سبب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شدید تنقید کی زد میں ہے جبکہ پارٹی نے گرفتار ہونے والے افراد سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔ان زائرین کی گرفتاری کے بعد حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے باضابطہ طور پر سعودی حکام سے مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ اس ناگوار واقعے میں ملوث افراد کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کی جائے اور ان لوگوں کے بارے میں معلومات بھی شیئر کی جائیں تاکہ ملک میں ان کے خلاف بھی علیحدہ کارروائی کی جا سکے۔
اسلام آباد میں سعودی سفارتخانے کے ترجمان نے تصدیق کی کہ سعودی عرب میں حکام نے کچھ ایسے مشتعل افراد کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے مقدس مسجد میں وزرا کو ہراساں کیا، طنز کیا اور ان پر حملہ کیا۔ یہ کارروائی جن لوگوں کی آشیرباد سے ہوئی انہوں نے ملک کے مفادات کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں اور گمان غالب ہے کہ سعودی عرب میں ان افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو جائے گا۔ ان لوگوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ایک مخصوص جماعت کی شہہ پر سب کچھ کیا اس جماعت نے ان سے لا تعلقی ظاہر کر دی ہے اور اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہو گا۔