اسلام آباد : پاکستان میں پانی کے تحفظ اور بہتر استعمال کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے حکومت کی طرف سے کی قومی آبی پالیسی کی منظوری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عمل درآمد سے ملک کو پانی کی شدید قلت سے بچایا جا سکتا ہے۔
ان ماہرین نے تاہم خبردار کیا ہے کہ آبی مشکلات سے نمٹے بغیرپائیدار معاشی و سماجی ترقی خاص کر غربت میں کمی، روزگار میں اضافہ، صحت، تعلیم اور ماحولیاتی ترقی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ۔
پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تقریباً تین دہائیوں سے التوا کی شکار پہلی قومی آبی پالیسی کے مسودے کی منظوری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 24 اپریل کو منعقدہ مشترکہ مفاداتی کونسل کے 37ویں اجلاس کے دوران دی۔
آبی پالیسی کا خاص مقصد پانی کی زراعت اور صنعت سمیت مختلف شعبوں کے لیے دستیابی، اس کے بہتر اور پائیدار استعمال کو یقینی بنانا اور اس کی اسٹوریج میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہے۔
قومی آبی پالیسی وفاقی کے علاوہ تمام صوبائی، گلگت بلتستان، فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر کے متعلقہ سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے اہم نمائندوں، پالیسی سازوں، تعلیم ماہرین اور محققوں کی تجاویز کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے۔ اس پالیسی کو عمل میں لانے کے لیے قومی آبی کونسل کے نام سے قومی سطح کے ادارہ کے ذریعے کام شروع جلد شروع کیا جارہا ہے۔
اس پالیسی مسودے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی آبی و خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جلد 6.4 ملین ایکڑ فُٹ اسٹوریج والے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کر کے ملکی سطح پرموجودہ 14ملین ایکڑ فُٹ آبی ذخیرہ کی صلاحیت میں مزید اضافہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ آبی استعمال اور ترجیحات کے تعین، آبی وسائل کی ترقی اور پائیدار استعمال کے لیے مربوط منصوبہ بندی، طاس کی ماحولیاتی ہم آہنگی۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، پانی کے حصے، آبپاشی اور بارش کے پانی پر منحصر زراعت، پینے کے صاف پانی اور سینیٹیشن، پن بجلی، صنعت، پانی کے تحفظ کے انتظامات، قانونی فریم ورک اور آبی شعبہ کے اداروں کی استعداد کار بڑھانے سمیت قومی آبی پالیسی کو عمل میں لانے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ، نئی آبی پالیسی میں ہر سال تقریباً 46 ملین ایکڑ فُٹ ضائع ہونے والے پانی میں سال 2030 تک 33 فیصد کمی لانے کے حوالے سے مختلف تجاویز دی گئی ہیں۔ماہرین نے اس پالیسی مسودے میں پانی کے زیاں میں کمی کے لیے نہروں کے ذریعے زرعی زمینوں تک پانی کے ترسیلی نظام کو مزید بہتر کرنے، جدید ڈرپ اور اسپرنکلر اریگیشن نظام کو کسانوں میں متعارف کرانے اور مختلف جدید آبپاشی ٹیکنالوجی کے استعمال کو ہر سطح پر ممکن بنانے پر بھی زور دیا ہے۔
عالمی بینک اور وفاقی ادارہ برائے منصوبہ بندی و ترقی کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان میں 30 دن کے استعمال کے لیے پانی کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ہے ، جو کم سے کم 120دن تک کی ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس انڈیا 200 دن اور مصر میں 1000دن تک کے استعمال کے لیے پانی اسٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو دریاؤں اور بارشوں کی صورت میں سالانہ تقریباً 115ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوتا ہے۔
اس پانی کا 93 فیصد زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پانچ فیصد گھریلو اور دو فیصد صنعتی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اریگیشن نیٹ ورک زبوں حالی کا شکار ہونے کے باعث زرعی شعبے کو ملنے والے پانی کا 70فیصد حصہ ترسیل کے دوران ضائع ہوجاتا ہے۔
وفاقی ادارہ برائے ترقی و منصوبہ بندی پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس آبی پالیسی کے تحت اب تمام صوبے اور تین انتظامی علاقے پائیدار ترقی اور بہتر آبی انتظام کاری کے قومی فریم ورک کی روشنی میں ایسے ماسٹر پلان ترتیب دے سکیں گے۔
جن کی مدد سے صوبائی و انتظامی سطح پر پانی کی اسٹوریج کے حوالے سے نئے منصوبے ترتیب دینے کے علاوہ پانی کے بہتر پیداواری استعمال کو فروغ دیا جاسکے گا۔ ایسے ماسٹر پلان کو عمل میں لانے کے لیے وفاقی حکومت مکمل طور پر مالی و تکنیکی مدد فراہم کرے گی۔‘‘