بہت عرصہ پہلے منو بھائی کے کالم میں کرشن نگر میں ایک پاگل گونگی لڑکی کو رات بھر سڑک پر چیختے چلاتے کراہتے ہوئے بچے کو جنم دینے کا سانحہ پڑھا۔ ویسے تو ایسے سانحات ایک بار ہی سن، پڑھ لیں تو زندگی بھر کرب کا سامان کر دیا کرتے ہیں۔ لیکن منو بھائی نے اس انسانیت کش واقعہ کو کئی بار اور ہر بار نئے الفاظ اور پیرائے میں مزید گہرے دکھ کے ساتھ لکھا۔ جب یہ واقعہ کالم بنا تب اس کی خبر میں نے پڑھی تھی، گونگی سڑکوں پر سونے اور بازار سے کھانے والی کے یوں پیدا ہونے والے بچے کی ولدیت کا کوئی ذمہ دار نہ تھا۔ مجھے یاد ہے وزیر آباد میں ایک نصیر نامی درندے نے قبر کشائی کر کے مرنے والی نوجوان دوشیزہ کی لاش سے زیادتی کی۔ پھر اپنے وطن کی سرزمین پر مردوں کو قبروں سے نکال کر کھانے والوں کی روداد بھی رونما ہوئی۔ سورج نے اسی دھرتی پر قتل کر کے لاشوں پر بھنگڑے ڈالنے، لاشیں جلانے کے واقعات دیکھے۔ بے کفن بیٹیوں کو دفناتے، دوا کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کی غلط تشخیص اور غفلت، عیدین پر بچوں کی خوشی پورا نہ کرنے پر خودکشی کرتے ہوئے والدین بھی سورج نے اسی سرزمین پر دیکھے۔ کراچی میں تقریباً 30 سال انسانیت کا قتل عام، ایک معمولی وقفہ کے بعد پھر فتنہ سر اٹھانے کو تیار ہے۔ مذہبی نام پر بننے والی تنظیموں نے کوئی ڈاکٹر چھوڑا نہ آفیسر، کوئی وکیل چھوڑا نہ جج، کوئی مجمع چھوڑا نہ دفتر میں بیٹھا یا واک کرتا تنہا سپرنٹنڈنٹ جیل یا جج۔ سو بچوں کا قاتل ہو یا ساری زندگی جیل کاٹنے والا بے گناہ، سولی چڑھنے والے ہوں یا مرضی کے خلاف ڈولی میں سوار ہونے والی لڑکیاں سب کے سب ایک لفظ کے ساتھ صبر کرنے پر مجبور ہیں کہ مقدر ہی ایسا تھا۔ حالانکہ مقدر کسی اور چیز کا نام ہے۔ دراصل سرے سے نظام موجود نہیں۔ آئین صرف حکمرانی اور حکمران حلقوں میں شامل ہونے کے لیے حلف اٹھانے کو رہ گیا۔ مہربانی ہو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ و دیگر انفارمیشن ٹیکنالوجی ایجاد کرنے والوں کی جو ظلم کو ساتویں تہہ سے اوپر کی سطح پر لے آئے۔ آج اطمینان ہوا ہو گا نور مقدم کے بد نصیب بابل کو، جب قاتل کے لیے موت کی سزا سنی ہو گی۔
دراصل نور مقدم کے بابل کی استقامت، عورت مارچ اور میڈیا نے کوئی لمحہ غفلت میں نہیں گزارا۔ جو عدالت بھی انصاف کے قابل ہوئی۔ جس حد تک بھی ہوا مگر انصاف ہوا۔ نور مقدم ایک بربریت کے بعد موت کے سکون میں چلی گئی مگر سیالکوٹ (موٹر وے) رنگ روڈ پر انتہائی عزت دار خاتون بچوں کے سامنے گزشتہ سال جو لٹ گئی، اس کے لیے انصاف کا انتظار ہے۔ یوں تو سوائے
چند فیصد حکمران طبقوں کے ہماری معاشرت کا ہر شعبہ اور شعبے کا ہر فرد انصاف کا طلبگار ہے۔ جو کچھ اس سرزمین پر ہو گیا اور چلتے لمحے میں بھی جاری ہے۔ قرونِ اولیٰ میں اللّٰہ کریم نے کسی ایک فعل پر پوری پوری قومیں موت کے گھاٹ اتار دیں مگر ہمارے ہاں اقتدار اور اختیارات کی رسی کشی کے لیے سیاسی شطرنج اور لڈو کا کھیل جاری و ساری ہے۔ کوئی 79 سے ڈنک کھاتا ہے اور زیرو پر آن گرتا ہے اور کسی کا 3 سے 99 تک پہنچانے والی سیڑھی مقدر ٹھہرتی ہے۔ بس ایک نمبر جو نمبر نہیں اشارہ ہی ہوتا ہے، کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ ہنگامہ اور دائرے کا سفر اور اب ہر شعبہ ایک دائرہ اور کئی دائرے، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، لوگوں کو محو سفر کیے ہوئے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے تو یاد دلایا انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ’’یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے‘‘ کہہ کر اور پھر کبھی شاہین بنایا کہ تو ’’کرگس نہیں ہے تیرا جہاں اور ہے‘‘ پہاڑوں کی چوٹیاں اور چٹانیں بلندیاں تیرا مقدر ہیں۔ ہماری معاشرت، اشرافیہ اور حکمران طبقے نے ایسی سازش کی، ایسا ظلم روا رکھا، ایسا انحطاط پذیر کیا، ایسا پاتالوں میں اتارا کہ فیض احمد فیض کو ’’کتے‘‘ لکھ کر بتانا پڑا کہ اگر کوئی ان کی دم پر پاؤں رکھ دے تو یہ ظالم ان کی ہڈیاں تک چبا دیں۔ گویا واپس اپنا مقام پا لے۔ مگر یہ دائروں کے سفر، یہ ٹرک کی بتیاں کون توڑے گا؟ نظام، سسٹم تو افراد کا مرہون منت ہو گیا اب یہ جس بات کے لیے، جس ہوس اور لالچ کے لیے اقتدار طاقت دولت کا ارتکاز کرتے ہیں اس کو یہیں ختم کرنا ہو گا۔
دولت کی تقسیم نہیں شخصی جائیداد، شخصی ملکیت، شخصی دولت کا خاتمہ کرنا ہو گا اگر کسی کو شعر
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
سے خوف آتا ہے کہ ضمانت نہیں ہوتی اور منیر نیازی پسند ہے تو پھر
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسمِ قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
گم ہو چلے ہو تم تو بہت خود میں اے منیر
دنیا کو کچھ تو اپنا پتا دینا چاہیے
ورنہ جالب، فیض تو تبلیغ ہی اس مکتبہ فکر کی کرتے رہے ہیں۔
ہمارے دوست سید علی رضا زیدی کہتے ہیں، ’’ضرورتیں، کمزوریاں، مجبوریاں، غالب آ ہی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وطن عزیز کے باسی ضمیر کے خلاف سمجھوتے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، انسانیت کے تقاضے اور ہیں لہٰذا عبادتیں صرف جائے نماز پر نہیں ہوتیں! میٹھی زبان، دھیمے لہجے، ہمدردانہ و عاجزانہ رویے بھی عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔
آتے ہیں عنوان کی طرف، نور مقدم کے بابل کو عورت مارچ اور میڈیا کے بعد عدالت کو مبارک کہ انصاف کا بول بالا ہوا اور قوم کو مبارک کہ ایک عرصہ بعد پھر سے سیاسی شطرنج اور لڈو کے کھیل سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ ان کو انجوائے کریں، ان کی ملاقات ملاقات کا منظر دیکھیں اور اندرون ملک ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر ایسا سلسلہ جاری ہے۔ عجیب بے برکت دور ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے مگر دوسرے ممالک کو اس لیے پروا نہیں وہاں نظام ہے اور یہاں مقدر۔ شطرنج اور لڈو کے کھیل میں مقدر آزمانا ہوتا ہے۔ نہیں تو دائرے کے سفر، ٹرک کی بتیاں، شطرنج کے کھیل اور لڈو کی بازی بھی جاری رہتی ہے اور انسانیت سوزی بھی۔