کورونا وبا کے دوران پاکستان کا شمار ان ملکوں میں کیا جا رہا تھا جن کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا مگر پاکستان کو اپنی برآمدات کے لئے ایک بڑی مقدار میں خام مال درآمد کرنا پڑا جس کے درآمدی بل میں بھی اضافہ ہوا۔ اس طرح پاکستان کا خسارہ مزید بڑھ گیا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جولائی تا دسمبر 2021ء کے دوران رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں جاری کھاتے کو 9 ارب 9 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ رواں مالی سال کے پانچویں مہینے یعنی گزشتہ برس نومبر میں جاری کھاتے کے خسارہ میں ایک ارب 91 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا تھا جو گزشتہ ساڑھے تین سال میں بلند ترین تھا۔ اس طرح رواں مالی سال کے جو لائی سے جنوری کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ ریکارڈ 11 ارب 57 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا۔ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں اضافے سے پاکستان کا تجارتی خسارہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پاکستانی معیشت کے لئے بڑے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ جب تک ہم اپنی صنعتوں کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل نہ بنائیں اس وقت تک درپیش صورتحال کو مثبت طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ہمارے توازنِ ادائیگی کے منفی ہونے میں دیگر وجوہات کے علاوہ زرعی اشیاء کی درآمدات کا بھی بڑا حصہ ہے حالانکہ ہم بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کے بعد ہم سب سے زیادہ زرِ مبادلہ خوردنی تیل جس میں پام آئل، سویا بین آئل اور دیگر تیل شامل ہیں کی درآمد پر صرف کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دالوں کی درآمد پر بھی ہم نے اپنے قومی وسائل سے ڈیڑھ کھرب روپے سے زائد خرچ کئے ہیں۔ ملک میں دالوں کی درآمد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، دالوں کی ملکی ضرورت سالانہ 15لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ صرف چنے کی دال کی ملکی ضرورت ساڑھے 6لاکھ ٹن سالانہ ہے تاہم اس کی کاشت پر توجہ نہ دیئے جانے کے سبب ملک میں چنے کی پیداوار ملکی ضروریات کا تقریباً
نصف رہ گئی ہے۔ ایک مربوط حکمتِ عملی کے فقدان کی وجہ سے جس سال کسی زرعی غذائی جنس کی قلت ہوتی ہے تو اس کی درآمد سے وہ بہت مہنگی میسر ہوتی ہے لیکن جس سال وہی جنس کاشت کار زیادہ رقبے پر کاشت کرتے ہیں تو بڑھی ہوئی مقدار کے برآمد نہ ہونے سے کسان بیچارہ رل جاتا ہے اور اس کے فصل کی کاشت پر اٹھنے والے مصارف ہی پورے نہیں ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کی ترقی کے لئے یہاں وہ تمام وسائل اور ذرائع موجود ہیں جنہیں بروئے کار لا کر نہ صرف زرعی پیداوار میں خود کفیل بنا جا سکتا ہے بلکہ اضافی زرعی اجناس برآمد کر کے قیمتی زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ اس طرح بڑھتی ہوئی درآمدات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے معیشت کے اس سب سے اہم شعبے کی طرف ماضی میں مناسب توجہ دی گئی اور نہ ہی اب دی جا رہی ہے۔ حکومتوں کی عدم توجہی، غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کی بدولت زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا جب کہ طلب میں اضافے کے باعث زرعی اجناس کی درآمد ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایسی اجناس جو تھوڑی سی محنت سے ملک میں بہ کثرت پیدا ہو سکتی ہیں ان کی درآمد پر کر وڑوں ڈالر کا قیمتی زرِ مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے، خوردنی تیل اور دالوں کی درآمد اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں خوردنی تیل اور دالیں کم پیدا ہونے سے ان کے نرخ بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ دونوں انسانی غذا کا بنیادی عنصر ہیں اور وافر مقدار میں غذائی ضروریات پوری کرنے میں استعمال ہوتی ہیں ان کی قیمت بڑھنے سے عام آدمی کے بجٹ پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مارکیٹ میں دالوں کے نرخ مرغی اور دوسری غذائی اشیاء سے بہت زیادہ ہیں۔ اچھی کوالٹی کی دالیں جو کچھ سال پہلے تک ملک میں وافر مقدار میں پیدا ہوتی تھیںملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد برآمد بھی کی جاتی تھیں اور عام آدمی کے لئے ان کے نرخ بھی بہت کم تھے دال کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ تھوڑی مقدار میں پکا کر ڈنگ ٹپا سکتے ہیں۔
ماضی کی حکومتوں کی غلط حکمتِ عملی کے تحت فصلوں کی کاشت میں منصوبہ بندی کا فقدان پیدا ہو گیا ہے۔ ماضی کی مسلم لیگ (ق) کی حکومت کے دور میں گندم کی پیداوار کے غلط اعداد و شمار پیش کئے گئے اور جی ڈی پی میں مصنوعی اضافے کی خاطر کم داموں پر گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں اس بنیادی غذائی جنس کا شدید بحران پیدا ہو گیا، گندم کی قلت کے باعث اس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اور غریب عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا یہاں تک کے پاکستان جیسے زرعی ملک میں آٹے کے لئے لوگ لائنوں میں لگ گئے۔ ملک میں گندم کے شدید بحران کے پیشِ نظر اس وقت کی حکومت 220ڈالر فی میٹرک ٹن کی برآمد کردہ گندم کو 450ڈالر فی میٹرک ٹن کے حساب سے درآمد کرنے پر مجبور ہوئی اور یوں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ گندم کی پیداوار میں اضافے اور اس کی درآمد پر خرچ ہونے والے بھاری زرِ مبادلہ کو بچانے کے لئے ماضی کی پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ نے 2008ء میں گندم کی امدادی قیمت میں ایک دم سے بہت اضافہ کر دیا اور گندم کی قیمت 525روپے فی من سے بڑھا کر ایک دم 950 روپے کر دی پھر اسی طرح آنے والے برسوں میں گندم کی امدادی قیمت میں بار بار اضافہ کر کے گندم کی قیمت 1800روپے تک پہنچا دی۔ جب کہ اس سال کے لئے گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے مقرر کر دی گئی ہے۔ اس اقدام سے اگرچہ کاشت کاروں کو مالی فائدہ ضرور ہو گا لیکن امدادی قیمت میں اضافے کا سارا بوجھ غریب عوام پر منتقل ہو جائے گا اور آٹے کی قیمت جو پہلے ہی 70 سے 80 روپے فی کلو تک ہے اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کے مصائب سنگین سے سنگین تر ہو جانے کا خدشہ ہے۔
ان معلومات سے واضح ہے کہ زراعت کو ملکی ضروریات کے مطابق منظم کر کے ہم بہت جلد درآمدات پر بھاری خرچ سے نجات پا سکتے ہیں۔ اپنا توازنِ ادائیگی بہتر اور معیشت پر موجودہ دباؤ کو قابلِ لحاظ حد تک کم کر سکتے ہیں اس لئے متعلقہ اداروں اور حکام کو اس ضمن میں بلاتاخیر مٔوثر اقدامات عمل میں لانے چاہئیں۔یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کریں۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ کسانوں میں کاشت کے جدید اور سائنسی طریقوں کو فروغ دیا جائے۔ پانی کی کمیابی کے باعث زیرِ کاشت رقبے میں اضافہ ممکن نہیں تاہم فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔