کراچی : سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے شیخ مجیب سے متعلق جاری بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھنے کا مشورہ دینا کون سی غداری ہے, کبھی آپ کو کھیلنے کے لیے 9 مئی مل جاتا ہے، اب آپ کو حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ ملک گئی ہے کھیلنے کے لیے۔
عارف علوی نے کراچی میں انصاف لائرز فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں عام آدمی کے طور پر یہاں آیا ہوں، قانون کی پاسداری اس لیے کروں گا کہ میں مسلمان ہوں، قانون وہ بنتا ہے جس کی معاشرے میں عزت ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسا قانون کیسے چلے گا، دہشت گرد آزاد ہے اور عام آدمی پر دہشت گردی کی دفعات اے ٹی اے لگایا جاتا ہے، دل کے اندر حیا اور شرم ہونی چاہیے۔
عارف علوی نے کہا کہ موجودہ صدر نے استثنی لیا ہوا ہے، میں پیش ہوتا تھا، مجھ پر بندوقیں سپلائی کا مقدمہ ہے، اللہ کہتا ہے حکمران عدل کے ساتھ رہیں گے، قول نبی ہے قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔
سابق صدر مملکت نے کہا کہ مظلوموں کی آواز بڑھتی جارہی ہے، محمد علی جناح دیانتدار وکیل تھے۔ ایم کیو ایم کو جتوایا گیا، کیا ایم کیو ایم جیت سکتی تھی؟ ایم کیو ایم سے اس شہر کو آزاد کرایا گیا، اب وہ دوسروں کے ساتھ ملکر اس شہر پر ظلم کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی نے بانی پی ٹی آئی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکر بات کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی حکمرانی قائم کرو، عمران خان کو رہا کرو، مینڈیٹ واپس کرو، ظلم و زیادتی بند کرو، بانی پی ٹی آئی بدلہ لینے والا نہیں، سابق وزیر اعظم قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔
سابق صدر نے بانی پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ سے شیخ مجیب سے متعلق بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں حمود الرحمٗن کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کا مشورہ دیا تو کیا غلط کیا، آپ نے اپنے ذہن میں ایک نظریہ بنا رکھا ہے، اس کے مطابق غدار قرار دے دیتے ہیں۔
سابق صدر نے کہا کہ کبھی آپ کو کھیلنے کے لیے 9 مئی مل جاتا ہے، اب آپ کو حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ ملک گئی ہے کھیلنے کے لیے، کوئی حد ہے یار، عمران خان نے کیا کہا ہے، انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ آپ کی حکومت کی حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھ لو، کیا اس نے غداری کی۔
انہوں نے کہا کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھنے کا مشورہ دینا کون سی غداری ہے، یہ کیا ضد ہے درگزر نہیں کریں گے بلکہ کہتے ہیں معافی مانگو لیکن معافی کس بات کی، ایک معافی کے لیے ملکی معیشت کو تباہ نہ کریں۔