پاکستان کی سیاست میں کب کیاہوجائے ؟؟کوئی کچھ نہیںجانتا،جس سے ملک ہمیشہ سے سیاسی ومعاشی لحاظ سے عدم استحکام کاشکارہا، گذشتہ چارسالوں میں ملک میںجس طرح سیاسی کارکنوں کے درمیان پرتشددرویوں کارجحان بڑھا ہے اس میں تحریک انصاف کی قیادت کابڑ ا عمل دخل ہے،2018ء کے انتخابات میں جیسے تیسے آرٹی ایس بیٹھا اس پرمسلم لیگ (ن)،پیپلزپارٹی اورجمعیت العلمائے اسلام (ف)سمیت دیگرجماعتوں نے جس طرح سیاسی صبروتحمل کامظاہرہ کیاوہ بلاشبہ قابل دید ہے ،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سسٹم کیوں بیٹھ گیاتھا؟؟؟ اس لئے وہ بھی بیٹھ گئے اورکسی تحریک میں نہیں پڑے، اور بالآخرسسٹم نے ہی تحریک انصاف کی حکومت کومرکز اورپنجاب کے سیاسی میدان سے نکال باہرکیا،جوملکی سیاست میں بڑی اہم وکٹ ہے،تحریک انصاف اس وقت زخمی ہے ،اس کی قیادت دانشمندانہ فیصلے کررہی ہے یا نہیں،اس کافیصلہ توتاریخ کرے گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان2018ء سے پہلے کے اپنے تمام نظریات ،اصول اوراخلاقیات سے دوربلکہ بہت دورہٹ چکے ہیں،اب ان کاشماربھی اقتدارکے ان پجاریوں میں ہوتاہے جن کووہ چورڈاکوکہتے ہیں،لیکن خان کا ان سیاسی رہنماؤں سے اس لئے موازنہ نہیں کیاجاسکتا کہ وہ سیاسی سوچ اورہمارے پیارے کپتان جذبانی سوچ رکھتے ہیں، جوجب چاہیں قومی راز تک کھول سکتے ہیں اس لئے انہیں خطرناک کھلاڑی کہنابے جانہ ہوگا،لہٰذامستقبل کے پاکستان کیلئے یہ سوچناہوگا کہ اگلی بار ایسا رسک نہ لیا جائے ،لیکن اگردوبارہ آرٹی ایس بیٹھ گیاتوملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔گذشتہ چارسالوں میں تحریک انصاف اوران کے وزراء کی کارکردگی اپوزیشن کی جماعتوں پرلعن طعن کے سوا کچھ نہیں،بس کپتان نے جوکہہ دیااس پرلکیرکے فقیرکی مانند سب ایک ہی لائن اڈاپٹ کرتے ہیں جس کوکارکن گراس روٹ تک کارکن بھی اپناتے ہیں جس سے معاشرے میں ایک خوفناک بے چینی پیداہوئی ،جس نے معاشرے کے سیاسی حسن کوبگاڑ کررکھ دیا،الیکشن کاماحول بن رہاہے ،تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاریاں کررہی ہیں،حکومتی اتحاد بھی ایک سال میں اپنی حکومت کی کاکردگی کواس نہج پرلاناچاہتی ہے کہ وہ عوام کوزیادہ سے زیادہ ریلیف دے تاکہ عام انتخابات میں انہیں فائدہ ہو، دوسری جانب تحریک انصاف کوکامیاب سیاست کیلئے ابھی بہت منزلیں طے کرناہیں ،سیاسی محاذچونکہ گرم ہے ،تحریک انصاف اپنے احتجاج کے دوسرے فیزمیں داخل ہورہی ہے ،قومی اسمبلی کے اراکین کے استعفے منظورہوگئے تو عام انتخابات سے قبل میدان بھی بڑا لگے گا تاہم اس سے قبل پنجاب میں تحریک انصاف کے بیس ارکان صوبا ئی اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے پر17جولائی کوانتخاب ہوناہے جس میں مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف کے درمیان کانٹے دارمقابلہ متوقع ہے،ان 20خالی نشستوں میں چارنشستیں لاہورکی ہیں جہاں بڑا مقابلہ ہوگا کیونکہ لاہورکامعرکہ ہمیشہ سے ہی اہمیت کاحامل رہاہے ، خواہ وہ ایک سیٹ ہویا تمام سیٹوں کا، اب چونکہ پنجاب کی سیاسی صورتحال بہت مختلف ہوچکی ہے ، اس لئے بڑا رن پڑے گا کیونکہ تحریک انصاف 2018ء میں لاہورکی اپنی جیتی اپنی چاروں سیٹیں جیتنے کیلئے ایڑی چوٹی کازورلگائے گی ،دیکھنا.ہوگا کہ دونوں بڑی جماعتیں کون کونسے امیدوارمیدان میں لاتی ہیں، لاہورکے جن حلقوں میں ضمنی انتخاب ہونا ہیں ان میں پی پی 158 سے عبدالعلیم خان ،پی پی167 سے نذیرچوہان ،پی پی 168ء اسدکھوکھراورپی پی170سے امین چوہدری شامل ہیں جو2018ء میں کامیاب ہوئے اورپارٹی پالیسی کے برعکس وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شبہازکوووٹ دینے کی صورت میں اپنی نشست سے محروم ہوئے ،اب صورتحال یہ ہے کہ یہ سیٹیں تحریک انصاف کی جیتی ہوتی ہیں، اب یہاں کیاہوگا؟؟کون جیتے گا؟؟کون ہارے گا؟ یہ وقت بتائے گا لیکن حقیقت یہ کہ مسلم لیگ ن یہ سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے مگراس کے لئے سخت محنت درکارہے ،اگرتحریک انصاف نے میدان مارلیاتویہ ن لیگ کیلئے عام انتخابات میں طبل جنگ ہوگا،سابق صوبائی وزیرعبدالعلیم خان ضمنی انتخاب میں اپنی ساتھی شعیب صدیقی کو میدان میں لاناچاہتے ہیں، سابق صوبائی وزیراسد کھوکھرمضبوط امیدوارہیں لیکن وہ خاندان میں سے بھی کسی کو میدان میں اتارسکتے ہیں، 2018ء میں وفاقی وزیرخواجہ سعد رفیق بیک وقت قومی وصوبائی اسمبلی کی سیٹیں جیتے تھے مگرقیاد ت کے فیصلے کے بعد انہوں نے پی پی 168 کی سیٹ چھوڑ دی تھی ،اوراسد کھوکھر مسلم لیگ ن کے رانا خالد قادری کوشکست دیکر ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے، پی پی 170میں امین چوہدری کی سیاسی پوزیشن بہت کمزورہے ، اگرچہ ان کے بھائی عون چوہدری وزیراعظم شہبازشریف کے مشیرہیں لیکن یہاں ن لیگ کوزورلگاناپڑے گا، اس کے حلقہ سے ن لیگ کے میاں عمران جاوید بھی کمزورامیدوارتھے، پی پی167ء میں نذیرچوہان کی بھی سیاسی پوزیشن کمزورہونے کے ساتھ ساتھ لب ولہجہ پرعام ووٹرکوغصہ ہے،بجائے اس کہ حلقہ کے لوگ پراناغصہ نکالیں ان دونوں سیٹوں پرجہانگیرترین گروپ مضبوط امیدوارسامنے لائیں۔کیونکہ یہ عام ضمنی معرکہ نہیں بلکہ اس ساری گیم میں سابق وزیراعظم عمران خان کوبڑی سیاسی چوٹ لگی ہے اس لئے وہ بھی اس سیاسی جنگ کوجیتنے کیلئے اپنی تن من دھن کی بازی لگائیں گے مگران کے پاس امیدوارکون ہیں ؟؟اس وقت یہ بڑا سوال ہے۔
پنجاب میں نئے گورنرپنجاب محمد بلیغ الرحمن کی تقرری سے صوبے میں ڈیڑھ ماہ سے جاری آئینی بحران ختم ہوچکا،اب صوبے کی ترقی کیلئے سب سٹیک ہولڈرزکواپناکرداراداکرناہے،صوبے کے وسیم اکرم پلس نے جواس صوبے کے ساتھ کیاہے ا س کوتاریخ کبھی نہیں بھلائے گی گذشتہ چارلوں میں صوبے کی ترقی بہت متاثرہوئی ہے بہرحال شکرہے کہ صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے بالآخرسابق گورنرعمرسرفرازچیمہ پرعدم اطمینان کا اظہار کیا اوروفاقی حکومت نے گورنر محمد بلیغ الرحمان کوصوبے کاآئینی سربراہ مقررکیا۔ بنیادی طوپرتحریک انصاف کووفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد Gracefully اپنے گورنرزہٹالینے چاہئے ،مگرپنجاب چونکہ سیاسی لحاظ سے اہم وکٹ تھی اورپھروزیراعلیٰ کے انتخاب ،سپیکرچوہدری پرویزالٰہی کیخلا ف تحریک عدم اعتماد کے باعث ’’سیاسی لچ تلا گیا‘‘ اوراس کاایندھن عمر سرفراز چیمہ کوبنایاگیا جوپویلین میں بیٹھے ایسے بارہویں کھلاڑی کی مانند تھے جس کوکپتان کبھی بھی بیٹنگ،باؤلنگ ،کیپنگ کرانے کااہل ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ کپتان اسے فیلڈنگ کے قابل بھی نہیں سمجھتے تھے ،بس ایسا وقت آیاکہ اس سے ایک بال پرآٹھ سکورکرنے کیلئے میدان میں بھیجاگیا،مگروہ سکورکے بجائے وکٹ پرہی لیٹ گئے،بہرحال اب ان کی تسلی ہوگئی ہے،اب وہ صدرمملکت کااعتماد کھوبیٹھے ہیں جس کاوہ بارباراظہاکرتے تھے ،عمرسرفرازچیمہ کی موجودہ صورتحال پر باباجی کے تاریخی شعرکاایک ہی مصرعہ ’’بڑے بے آبروہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے ‘‘کافی ہے،اگرحقیقت میں دیکھاجائے کہ تحریک انصاف اورعمرسرفرازچیمہ نے اس آئینی عہدہ کوبے آبروکرنے کوشش کی مگر،بہرحال اب محمدبلیغ الرحمان کی بطورنئے گورنرتقرری عمل میں آچکی ہے، حلف کے بعدصوبائی کابینہ اپناکام شروع کرچکی ہے ،جمہوریت کے تلخ دنوں کی ایک تلخ سیاسی رات کاخاتمہ ہوچکاہے،اب اگلی سیاسی گیم شرو ع ہونے والی ہے ،وقت کم ہے اورمقابلہ سخت ہے، حکومت کوکچھ کرناہے ورنہ سارے پلان فیل ہوجائیں گے،اور 2023میں پنجاب کسی اورکے ہاتھ بھی جاسکتاہے،اس لئے حکومت کوہرحال میں بہترڈلیورکرناہے۔
پنجاب کے39ویں گورنرانجینئر بلیغ الرحمان کاتعلق جنوبی پنجاب کے پسماندہ شہربہاولپورکے علاقہ رحمن والا بوہڑ گیٹ ملتان سے ہے،انتہائی نفیس اورشگفتہ گفتگوکے حامل ہونے کیساتھ ساتھ بہترین ایڈمنسٹریٹر اوراصول پسند ہیں،وہ 21دسمبر1969ء کوبہاولپورمیں پیداہوئے اورابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک چلے گیا اوریونیورسٹی آف پنسلوانیا سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔ بہاولپور سے2008اور2013کے عام انتخابات میں این اے 185ء سے بھاری مارجن سے کامیاب ہوئے ان کے مدمقابل سترہ کے قریب مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوارتھے مگر انہوں نے 88ہزار219ووٹ لیکرکامیابی حاصل کی۔ سابق وزیراعظم نے انہیں وفاقی وزیرتعلیم وٹریننگ کاقلمدان سونپا ،اس دوران انہوںنے ووکیشنل ٹرینگ سنٹرز،سکلزڈیویلپمنٹ سمیت تعلیمی اداروں میں اہم اقدامات کئے۔بعدازاں سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے امورداخلہ و نارکوٹکس کنٹرول کے طورخدمات سرانجام دیں۔ان کاشمار مسلم لیگ ن کے سینئررہنمائوں اورشریف خاندان کے معتمد دوستوں میں ہوتاہے ، سابق وزیراعظم محمدنوازشریف کی 2013ء اور2017ء شاہدخاقان عباسی کی وفاقی کابینہ کاحصہ رہ چکے ہیں ،2019ء میں ان کوایک شدید صدمہ سے بھی دوچارہوناپڑا جب ایک حادثہ میںان کی اہلیہ اورصاحبزادہ ٹریفک حادثہ میں جاہ بحق ہوگئے ،اس دلخراش واقعہ پرسابق وزیراعظم محمد نوازشریف بہت رنجیدہ ہوئے،مریم نوازتعزیت کیلئے خصوصی طورپرلاہورسے بہاولپور گئیں۔ گورنر پنجاب نے بطوروفاقی وزیربہترین خدمات سرانجام دیں اورامیدہے کہ صوبے کے عوام بالخصوص جنوبی پنجاب کیلئے بہترین ثابت ہونگے ۔