اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈینیل پرل کیس میں ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنےکی سندھ حکومت کی استدعا مسترد کردی۔جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس کے آغاز میں جسٹس منظور ملک نے کہا کہ فیصلہ معطل کرنے کیلئے درخواست میں غیر متعلقہ دفعات کا حوالہ دیا گیا ہے، سب سے پہلے ڈینیل پرل کے اغوا کو ثابت کرنا ہوگا، شواہد سے ثابت کرنا ہوگا کہ مغوی ڈینیل پرل ہی تھا۔
جسٹس منظور ملک نے کہا کہ سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ راولپنڈی میں سازش تیار ہوئی، راولپنڈی میں کیا سازش ہوئی یہ بھی شواہد سے ثابت کرنا ہوگا، جائزہ لینا ہوگا اعترافی بیان اور شناخت پریڈ قانون کے مطابق تھی یا نہیں؟ حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت نے سندھ حکومت کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست دے رکھی ہے،آپ نے سزا معطلی کی درخواست میں جو نکات اٹھائے وہ سب غیرمتعلقہ ہیں، آپ کو عدالت کی طرف سے اٹھائے سوالات پر مطمئن کرنا ہوگا، آپ کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ اغوا برائے تاوان کے لیے امریکی صحافی کو قتل کیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جن فوجداری شقوں کے تحت ٹرائل کورٹ نے سزا نہیں دی کیا ان نکات کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا؟ انسداد دہشتگری کی دفعات نظر انداز کرنےکا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کیا ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا؟ آپ جن فارنزک شواہد پر انحصار کر رہے ہیں ہم ان کا بھی جائزہ لیں گے۔
عدالت نے کہا کہ کیس کی کچھ دستاویزات نامکمل ہیں وہ بھی پیش کی جائیں۔
اس موقع پر سندھ حکومت کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کیس میں ڈینیل پرل کے والدین نے بھی فریق بننے کی استدعا کی ہے، مقتول کے والدین ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے۔
عدالت کے استفسار پر سندھ حکومت نے ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ جمع کرانے کیلئے مہلت مانگ لی اور سپریم کورٹ نے ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنےکی استدعا مسترد کردی۔عدالت نے ڈینیل پرل کیس میں اپیل کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے امریکی صحافی کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا لیکن سندھ حکومت اور مقتول کے والدین نے ملزمان کی بریت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔