اسلام آباد: تاریخ میں پانچ رمضان کا دن کئی اہم واقعات کا حامل ہے۔ ان میں عبدالرحمن الداخل کی پیدائش ، لیبیا کے انقلابیوں اور اطالوی قابض افواج کے درمیان مشہور معرکہ اور فلسطین میں اللد کا قتل عام نمایاں ترین واقعات ہیں۔
تاریخی محقق وسیم عفیفی کے مطابق جب بھی اندلس کی تاریخ کا ذکر آئے گا تو عبدالرحمن الداخل جن کو "صقرِ قریش" (قریش کا باز) کا خطاب دیا گیا تھا.. ان کا نام سرفہرست ہو گا۔ عفیفی کا کہنا ہے کہ عبدالرحمن الداخل کو یہ خطاب ان کے سخت ترین دشمن اور سیاسی مخاصم یعنی دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے دیا تھا۔
عبدالرحمن الداخل کا پورا نام عبد الرحمن بن معاويہ بن ہِشام بن عبد الملک بن مروان ہے۔ وہ 5 رمضان 113 ہجری میں شام میں پیدا ہوئے۔ وہ دمشق میں اموی خلافت کے زیر سایہ پروان چڑھے۔ عبدالرحمن پانچ برس کے تھے تو ان کے والد فوت ہو گئے جس کے بعد ان کے دادا اور بھائیوں نے ان کی پرورش کی۔
اموی ریاست کے سقوط کے بعد عبدالرحمن الداخل ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہوتے رہے۔ اس دوران افریقہ کے والی عبدالرحمن بن حبیب الفہری نے اموی خلافت کے سقوط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افریقہ پر اپنی حکم رانی کو خود مختار بنا لیا۔ اس موقع پر عبدالرحمن الداخل نے اندلس میں داخل ہونے کی تیاری کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک مضبوط فوج تیار کی اور اپنے ایک اہل کار کو جائزہ لینے کے لیے اندلس بھیجا جس کا نام بدر تھا۔ بعد ازاں انہوں نے بربروں کے ساتھ رابطہ کر کے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا جس پر وہ آمادہ ہو گئے۔ بربر اموی ریاست سے محبت رکھتے تھے جب کہ یوسف بن عبدالرحمن الفہری سے شدید نالاں تھے۔
ربیع الثانی 138 ہجری میں عبدالرحمن الداخل اپنی فوج کے ساتھ آبنائے جبلِ طارق کو عبور کرتے ہوئے اندلس میں داخل ہو گئے۔ ان کے تمام حامی بھی ہم راہ ہو گئے تو پورا ملک ہی جھکتا چلا گیا یہاں تک کہ دھیرے دھیرے اِشبیلیہ پہنچ کر اُس کو فتح کیا اور وہاں کے لوگوں نے عبدالرحمن الداخل کی بیعت کر لی۔ بعد ازاں یوسف بن عبدالرحمن الفہری کی فوج کو ہزیمت سے دوچار کر کے عبدالرحمن الداخل نے 10 ذو الحجہ 138 ہجری کو دارالحکومت قرطبہ بھی فتح کر لیا۔ اس طرح پورا اندلس ان کے زیر حکمرانی آ گیا۔
پانچ رمضان 1342 ہجری مطابق 23 اپریل 1923 کو لیبیا کے جنوب میں بئر الغبی کا مشہور معرکہ ہوا۔ جھڑپ کا آغاز اس وقت ہوا جب لیبیا کے رہ نما عمر المختار نے مصر سے واپسی پر لیبیا کی سرحد عبور کی تو 7 اطالوی بکتر بند گاڑیوں نے گھات لگا کر ان پر حملہ کر دیا۔ جواب میں لیبیائی جنگجوؤں نے گاڑیوں پر فائرنگ کر ڈالی۔ اطالوی فوجی تھوڑا پیچھے ہٹے اور اس کے بعد دوبارہ تیزی سے پلٹے۔ کافی دیر تک گھمسانکی لڑائی جاری رہی یہاں تک کہ کچھ اطالوی فوجی مارے گئے اور باقی فرار ہو گئے۔ ایک کے علاوہ بقیہ تمام بکتر بند گاڑیاں جل کر تباہ ہو گئیں۔
پانچ رمضان 1367 ہجری مطابق 11 جولائی 1948 کو اسرائیلی کمانڈوز کے یونٹ نے موشے ڈیان کی قیادت میں فلسطین کے شہر الّلد میں قتل عام کا ارتکاب کیا۔ یونٹ نے شام کے وقت یافا اور بیت المقدس کے درمیان راستے پر واقع دو شہروں اللد اور الرملہ پر دھاوا بولا۔
دونوں شہروں پر شدید فضائی بم باری کی گئی۔ تاہم الرملہ میں فلسطینی جنگجو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والے معرکے کے بعد حملہ پسپا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دوران اسرائیل کے 60 اہل کار مارے گئے۔ جنگجوؤں کا سامان ختم ہو گیا تو اسرائیلی فوجیوں نے پلٹ کر دوبارہ حملہ کیا اور اللد شہر کی آبادی میں 426 عرب شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ ان میں سے 176 افراد صرف شہر کی دہمش مسجد کے اندر مچائی گئی قتل و غارت گری میں جاں بحق ہوئے