ایتھنز : یونان کے قریب سمندر میں ڈوبنے والے کشتی کے زندہ بچ جانے والے مسافروں نے یونانی عدالت میں بیان دیا ہے کہ کشتی حادثہ یونانی کوسٹ گارڈز کی غلطی کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ کشتی میں پاکستان ، افغانستان اور مصر کے شہری سوار تھے۔ زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی ۔
برطانوی نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق یونان کے قریب کشتی کی تباہی سے بچ جانے والوں نے شمالی افریقا میں اسمگلروں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ تالیاں بجاتے ہوئے مچھلی پکڑنے والے ٹرالر میں گھس رہے تھے انہوں نے ڈیک کے اوپر اور نیچے سخت ترین حالات کا ذکر کیا جہاں کوئی خوراک یا پانی نہیں تھا۔
زندہ بچ جانے والے افراد نے عدالتی حکام کو اوور لوڈ کشتی کو کھینچنے کی ایک تباہ کن کوشش کے بارے میں بتایا جس کی وجہ سے 14 جون کی صبح کشتی الٹ گئی۔
رائٹرز کی طرف سے دیکھے گئے شواہد کے مطابق یونانی عدالتی حکام کو پیش کیے گئے 9 بیانات میں سے 6 میں کہا گیا کہ کوسٹ گارڈ کی جانب سے تباہ کن طریقے سے کشتی کھینچنے کی کوشش کی گئی، جو سانحے کی وجوہات کی تحقیقات کر رہے تھے۔
ایک زندہ بچ جانے والے شامی نے بتایا کہ وہ اور دیگر تارکین وطن ایڈریانا پر سوار تھے جو اٹلی جاتے ہوئے تباہ ہو گئی تھی، وہ چیخے کہ ’رک جاؤ!‘ یونانی کوسٹ گارڈ کے جہاز نے کشتی کی کمان سے رسی جوڑی اور رفتار کو بڑھاتے ہوئے اسے کھینچنا شروع کر دیا۔ کشتی دائیں، بائیں ہوئی اور پھر الٹ گئی۔
تین دیگر گواہان نے بتایا کہ انہیں نہیں پتا کہ ایڈریانا کیوں الٹ گئی۔ رائٹرز نے ان 9 بچ جانے والے افراد کے نام ظاہر نہیں کیے۔
6 عینی شاہدین کے بیانات یونانی کوسٹ گارڈ اور حکومت سے مختلف ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ کشتی کو کھینچنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور کشتی اُس وقت الٹی تھی جب کوسٹ گارڈ تقریباً 70 میٹر کی دوری پر تھی۔
وزارت جہاز رانی نے بتایا کہ وہ ان مسائل پر تبصرہ نہیں کر سکتی جو خفیہ ہیں اور جن کی پراسیکیوٹرز کی جانب سے تحقیقات جاری ہے۔ یونانی پراسیکیوٹرز کو قانون کے ذریعے پوچھ گچھ کے دوران تبصرہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ 9 زندہ بچ جانے والوں نے 17اور 18 جون کو تفصیلات تفتیش کاروں کو جمع کرائیں، جو آفت کی ابتدائی تحقیقات کر رہے تھے۔