قومی اسمبلی کا بجٹ اپوزیشن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بغیر کسی مزاحمت کے بآسانی پاس ہو گیا۔ دعویٰ تو یہ تھا کہ اپوزیشن اس عوام دشمن بجٹ کے خلاف مزاحمت کرے گی اور سیسہ پلائی دیوار بن جائے گی لیکن سیسہ پلائی دیوار تو چھوڑیں یہ ریت کی دیوار بھی ثابت نہ ہو سکی بلکہ کاغذی دیوار بھی نہ بن سکی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سب کچھ درون پردہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے شدہ تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنے اہم اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماؤں سمیت غیر حاضر تھے۔ غیر حاضر اراکین قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ممبران کی اکثریت تھی۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا جناب شہباز شریف اپنے تایا زاد بھائی میاں طارق شفیع کی وفات کے باعث جنازے اور لاہور میں رسم قل کے باعث قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے۔ اللہ میاں شفیع کے درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین کو صبر دے۔ اگر مریم اورنگ زیب کی دلیل مان لی جائے تو اس حساب سے نوازشریف کو اپنی اہلیہ اور مریم نواز کو اپنی والدہ کلثوم نواز کو بسترِ مرگ پہ چھوڑ کے کبھی واپس نہیں آنا چاہیے تھا جبکہ انہیں معلوم تھا کہ پاکستان جا کر وہ پابند سلاسل ہوں گے۔ مریم نواز کی دادی کی رحلت ہو گئی تھی پھر بھی انہوں نے پی ڈی ایم ملتان جلسے میں شرکت کی تھی۔ لیڈر اور عام آدمی میں یہی فرق ہوتا ہے کہ وہ اپنے دکھ تکلیف کو ایک طرف رکھ کر عوام کی نمائندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز شریف بیگم کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر پاکستان آ سکتے تھے تو شہباز شریف کو بھی اس اہم موقع پر قومی اسمبلی میں موجود ہونا چاہیے تھا۔
مسلم لیگ ن کی ایک اور دلیل کہ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کے تمام ارکان موجود ہونے کے باوجود بجٹ منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔ بجٹ 172 ووٹ سے منظور ہوا، اختر مینگل اور جماعت اسلامی کی عدم موجودگی کے بعد اپوزیشن کے کل ووٹ 161 بنتے تھے جس سے فنانس بل پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔
اگر ایسا ہے تو پھر ساری جدو جہد ترک کر دیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھ جائیں کیونکہ حکومت کی عددی اکثریت مصمم ہے۔ اپوزیشن کا کام ہی اپنے وجود کا احساس دلانا ہوتا ہے عوام کو امید دلوانی ہوتی ہے اگر وہ حکومت کی عددی اکثریت کے سامنے پسپا ہو جائے تو پھر عوام کا خدا حافظ۔ چلیں شہباز شریف صاحب تو کزن کی وفات کی وجہ سے نہیں آ سکے، باقی جو غیر حاضر اراکین تھے ان کو کیا ایمرجنسی تھی۔ یقیناً اپوزیشن بجٹ کو پاس ہونے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن ان کے تمام اراکین کا ہاؤس میں موجود ہونا ضروری تھا یہی جمہوری اور پارلیمانی روایت اور عوام کی آواز ہے۔ بے چارے عوام ان سے اچھے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی مریم اورنگ زیب نے بجٹ کی منظوری کے وقت اپنے ارکانِ اسمبلی کی غیر حاضری بارے جو کچھ کہا ہے اسے لڑے بغیر ہتھیار ڈالنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
مسلم لیگ ن کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو سیاسی بالغ ماننے کو تیار نہیں۔ احسن اقبال کا یہ کہنا کہ بلاول بھٹو کا قومی اسمبلی میں شہباز شریف اور مسلم لیگی ممبران کی غیر حاضری بارے بیان بچگانہ ہے تو عرض ہے کہ قوم کی اکثریت یہی کہہ رہی ہے۔ کیا صرف آپ سیاسی طور پر بالغ ہیں اور باقی بوزنے؟
شاہد خاقان عباسی صاحب فرماتے ہیں، اپوزیشن کے 163ارکان ایوان میں موجود ہوتے تو بھی بجٹ منظور ہو جاتا۔ اگر ایسی بات ہے تو 138ارکان نے جانے کی زحمت کیوں کی۔ اپوزیشن کی ایوان میں موجودگی عوام کے لیے ایک سہارا ہوتا ہے۔ اگر آپ کی دلیل مان لی جائے تو سب گھر بیٹھ جائیں اوراسمبلی کی کارروائی عوام کی طرح ٹی وی پر دیکھ لیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کی اسی لُکا چھپی اور غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے حکومت باقی مدت پوری کر گزرے گی اور اس حوالے سے اپوزیشن کے دعوے پانی کا بلبلہ ثابت ہوں گے۔
سندھ اسمبلی کی بات کریں تو وہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا اور سپیکر بے بس ہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اجلاس میں علامتی جنازہ لے آئے اور اسمبلی سٹاف کو چارپائی نظر نہ آئی۔ منتخب اداروں کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہو گی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس اقدام پر پی ٹی آئی کی اپنی پارلیمانی پارٹی کی شابازشی بھی ملی۔
عالمی تناظر میں پاکستان کے آس پاس دیکھا جائے تو وطن عزیز مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال بہت الارمنگ ہے طالبان مسلسل پیش قدمی کر رہے بھارت بھی طالبان سے بات چیت کر رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم مقبوضہ کشمیر پر کشمیر کی سلیکٹڈ اپوزیشن سے بات کر رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن افغان صدر کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کرتا ہے لیکن پاکستان سے رابطہ کرنا گوارا نہیں کرتا۔ پاکستان اس بڑی ڈویلپمنٹ سے مکمل باہر ہے اور ہماری پارلیمنٹ بھی اس کے بجائے ہم فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ بھارت اور طالبان کی قربت ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ابھی امریکہ کا انخلا مکمل نہیں ہوا اور افغان سرحد سے ہمارے فوجیوں پر فائرنگ ہوتی ہے شہادتیں ہوتی ہیں جب امریکی انخلا مکمل ہو جائے تو تب کیا ہو گا۔ ہمیں ان معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن ہمارے وزیر خارجہ کا فوکس اسمبلی میں اس صورتحال پر بات کرنے کے بجائے اپوزیشن پر الزامات اور ذاتی وضاحتوں پر مرکوز تھا۔
دوسری طرف ہم گزشتہ تین دن کی قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہماری حکومت اور اپوزیشن کی بھی تمام تر توجہ ذاتی پوائنٹ سکورنگ پر مرکوز ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں پاکستان کو درپیش چیلنجز کو زیر بحث لانا چاہیے تھا لیکن اس فورم کو بھی سٹیج ڈرامہ بنا دیا گیا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ہم کریڈٹ لے رہے تھے کہ دنیا کی بقا کی جنگ کی خاطر ہم نے طالبان رہنما گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا اور آج ہم طالبان کی فتح کا جشن منا رہے ہیں اور جن کے لیے جشن منا رہے ہیں وہ ہمیں ماننے کو تیار نہیں۔ بلکہ امریکی آشیر باد سے بھارت انہیں زیادہ عزیز ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور سیاستدانوں کو ذاتی معاملات کے بجائے وطن عزیز کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
گیس کی کمی تو آج کا موضوع نہ تھا لیکن جب سے ہوش سنبھالا ہے گیس کی کمی ہمیشہ سردیوں میں دیکھی گئی لیکن پرانے پاکستان میں گرمی میں بجلی کی قلت ہوا کرتی تھی اور سردی میں گیس کی لیکن نئے پاکستان میں ہم نے سردی میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ دیکھی اور اب گرمی میں گیس کی لوڈشیڈنگ دیکھ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں خیبر پختون خوا میں کچن میں بھی گیس عنقا ہے۔ یہ سب کیا ہے بد انتظامی یا کچھ اور؟
قارئین اپنی رائے کا اظہار 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔