نئی ویڈیو اور نیا سال

10:19 AM, 1 Jan, 2023

نیوویب ڈیسک

ہر روز ایک نیا کٹا کھل جاتا ہے۔ اک نیا تماشہ منتظر رہتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ مہاتما نے گند ہی اتنا ڈالا ہے کہ اس کی صفائی میں کئی برس لگ جائیں گے۔ جنہوں نے انہیں ہمارے سر پر مسلط کیا تھا وہ خود تو چلے گئے مگر ان کا پھیلایا ہوا تعفن سوسائٹی میں اب بھی موجود ہے۔ کارکن ان کے کارہائے نمایاں پر شرمندہ ہیں اور کچھ تو وہ ہیں جو محظوظ ہو رہے ہیں کہ ان کے مرشد اور مرید نے نئی سے نئی کہانیاں رقم کی ہیں۔ لوگ کوک شاستر بھول جائیں جو کبھی ان کی آڈیوز سنیں۔ توبہ استغفار کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ گناہوں پر پردہ پڑا رہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور ضرور ہے لیکن جب ان خطاؤں کی پٹاری کو بیچ چوراہے میں کھول دیا جائے تو اس کی بو ہر سو پھیل جاتی ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا کم تھا کہ اب مہاتما کے قصے کہانیاں بھارتی چینل مزید مرچ مصالحہ ڈال کر بیان کر رہے ہیں اور اپنے ناظرین سے کہہ رہے ہیں کہ ان کی یہ رپورٹس 18 برس سے کم عمر بچے نہ دیکھیں۔ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا والا محاورہ یہاں فٹ آتا ہے۔ عمران ہاشمی اب منہ چھپاتا پھر رہا ہے کہ پاکستان سے اس سے بھی بڑا فنکار سامنے آ گیا ہے۔ 
مہاتما کیا کم تھا کہ مرشد کی ویڈیو بھی سامنے آ گئی۔مرشد اور مرید کی گفتگو کے بعد وہ ورطہ حیرت میں ہیں جو انہیں ماں کے برابر درجہ دیتے تھے۔ کئی گدی نشینوں نے اپنے مریدین کو منع کر دیا ہے کہ انہیں مرشد نہ کہا جائے۔ کہاوت ہے کہ نانی نے خصم کیا برا کیا، کر کے پھر چھوڑ دیا مزید برا کیا۔ اب یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ ٹٹ گئی تڑک کر کے۔ واللہ عالم کیا صحیح ہے کیا غلط ہے مگر جو کچھ میڈیا پر آ رہا ہے وہ کسی طور ایسا نہیں کہ اسے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکے۔ کیا خاندانی نظام تشکیل دیا ہے اور کیا تربیت کی جا رہی ہے۔ یہ وہی شخص ہے کہ میں تو یہ باتیں اس لیے کرتا ہوں کہ ان کہ تربیت ہو۔  اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے انگریز اتالیق مقرر کروائے اور یہاں کے لوگوں کی تربیت کا فریضہ خود سنبھال لیا۔ بیچاری عائلہ ملک اب صفائیاں دے رہی ہے کہ ان سے منسوب آڈیوز جعلی ہیں اور یہ ن لیگ کی کارستانی ہے۔حالانکہ جو لوگ یہ ریکارڈنگ کر کے مارکیٹ کر رہے ہیں جرات نہیں ہو رہی کہ ان کے نام لیے جائیں۔ وزیراعظم ہاؤس کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے والا پکڑا گیا اور وہ کس کا آدمی تھا اور کسے رپورٹ کر رہا تھا اس کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔ بدقسمتی سے صرف اسے ہی گرفتار کیا گیا ہے اور جو اس کے پیچھے ہیں وہ مزے سے ہیں۔ حامد میر نے ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان آڈیوز اور ویڈیوز کی بو اتنی ہے کہ لوگ ناک پر رومال رکھ لیں گے اور ن لیگ والے خوش نہ ہوں کہ ان کی آڈیوز اور ویڈیوز کا البم بھی ان کے پاس موجود ہے بس مناسب وقت ملتے ہی ان کا مہورت ہو سکتا ہے۔ دھندہ ہے مگر گندہ ہے لیکن ہو رہا ہے اور جو اس میں ملوث ہیں ان کے اوپر بڑے بڑوں کا ہاتھ ہے۔ دھندہ اور وہ بھی گندہ کبھی بھی بڑوں کی آشیر باد کے بغیر چل نہیں سکتا۔ 
رات سے ایک اور ٹوٹا چل رہا ہے کہ مہاتما کی 
راولپنڈی کے ایک خواجہ سرا کے ساتھ ویڈیو بھی موجود ہے۔ طاقتور وزیر نے اس خواجہ سرا کا کھوج لگا لیا اب پتہ نہیں کہ کھوج لگانے کے بعد کیا ہوا، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سے کوئی اقبالی بیان ریکارڈ کروایا ہو تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آ سکے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر مختلف خواجہ سراؤں کی تصاویر شئیر کی جا رہی ہیں اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مہاتما کی ویڈیو ان کے ساتھ ہے۔ ایک اور اطلاع یہ دی گئی کہ کچھ ویڈیوز ایسی بھی ہیں کہ جو فطری نہیں ہیں۔ اب ناظرین خود ہی قیافہ لگائیں کہ اس میں کیا ہو سکتا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے زیر لب مسکراتے ہوئے کئی بار یہ کہا ہے کہ انہوں نے بھی کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں اور ان کی نوعیت اس قسم کی ہے کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ سوشل میڈیا نے یہ سہولت تو دے دی ہے کہ ویڈیو کو خاموشی سے اپ لوڈ کردو اور جس کے فالورز زیادہ ہیں اس اکاؤنٹ سے اسے ری ٹویٹ کروا دو۔ بس پھر یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ محض یہ کہہ دینا کہ یہ آڈیوز جعلی ہے اس کا علاج نہیں ہے۔ اپنے آپ کو مہاتما کے درجے پر برقرار رکھنے کے لیے اس کا فرینزک کروائیں اور رپورٹ لوگوں کے ساتھ شئیر کریں۔ بقول محمد حنیف "جس چیز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے گندے بدبودار سنیما میں جانا پڑتا تھا، پولیس کا خوف رہتا تھا وہ آپ کے فون پر دستیاب ہے۔"
آج 2022 کا آخری دن ہے۔ کیسے گزرا اس کا احاطہ صرف یہ کہہ کر کیا جا سکتا ہے کہ ہر دن ایک برس بن کر لوگوں پر بیتا ہے۔ کسی جگہ سے خوشی کی کوئی خبر نہیں آئی۔ لوگ بمشکل اپنا چولہا جلا رہے ہیں اور اپنے پیٹ کا دوزخ بھر رہے ہیں۔ ان آڈیوز اور ویڈیوز سے لوگوں کے پیٹ نہیں بھرے جا سکتے۔ لوگوں کی توجہ بنیادی مسائل سے نہیں ہٹائی جا سکتی۔ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو رہی ہے اور غریبوں کی تعداد دن دگنی رات چوگنی ہو رہی ہے کہ متوسط طبقہ تیزی سے غربت کی لکیر کو عبور کر رہا ہے۔ معاشرتی توازن تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ پاکستان نے صرف ایک چیز میں ترقی کی ہے اور وہ ہے غربت اور مہنگائی۔ دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں طالبان پھر سے ملک کو تہہ و بالا کرنے نہ آ جائیں۔ ملک کے حالات جتنے زیادہ خراب ہوں گے طالبان کے لیے یہاں کام کرنا آسان تر ہوتا جائے گا۔ ویسے ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہونا چاہیے کہ طالبان جس کے اثاثے منجمند ہیں اور اس پر پابندیاں عائد ہیں وہاں کی کرنسی ہم سے مضبوط کیوں ہے۔ کیا صرف افیون کی کاشت سے اتنی رقم مل جاتی ہے کہ ریاست کو چلایا جا سکے۔ ان کے پاس تیل ہے نہ گیس پھر وہ کس طرح اپنے آپ کو چلا رہے ہیں اور پاکستان کی منڈی سے مہنگے داموں ڈالر خرید کر لے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس شوکت ترین ہے نہ مفتاح اسماعیل اور نہ ہی اسحق ڈار۔ ان کی معیشت ہم سے بہتر کیونکر ہے؟ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں آڈیوز اور ویڈیوز والا معاملہ ڈسکس نہیں ہوا بلکہ ملک کی معیشت اور ملک کو درپیش سلامتی کے مسائل پر گفتگو ہوئی ہے اور یہی اعلامیہ جاری ہوا ہے۔ یہ اجلاس اب دوبارہ پیر کے روز بلایا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ کسی اہم ترین مسئلہ پر بات ہو رہی ہے اور یہ اہم ترین مسئلہ فنانشل ایمرجنسی اور طالبان کی ملک میں بڑھتی ہوئی کارروائیاں ہی ہیں۔ 
جیسے جیسے سردی بڑھ رہی ہے مہاتما کا جوش بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ ان تک یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ بس جی جس زیادہ بات نہیں چیف صاحب۔ رہی سہی کسر آڈیوز اور ویڈیوز نے پوری کر دی ہے۔ عمران خان کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ انہیں خود اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
 حکومت کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہے۔ اسے خود علم ہے کہ نظام میں موجود وائرس سسٹم کو کسی وقت بھی زمین بوس کر سکتے ہیں۔ انٹی وائرس سے ان کی صفائی کا کام شروع کرنے میں تاخیر کی گئی تو اس نظام کی ہارڈ ڈرائیو شدید متاثر ہو گی اور آخری حربے کے طور پر وائرس کو ختم کرنے کے لیے ہارڈ ڈرائیو کو فارمیٹ کرنا پڑے گا۔ بہتر کہ سسٹم کو سکین کیا جائے اور جو وائرس موجود ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے ورنہ آپ کوئی کمانڈ دیں گے اور اس کا نتیجہ اس کے خلاف آ سکتا ہے۔ 

مزیدخبریں