بلا شبہ بحیثیت قوم ہم بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم میں کمزوریاں بھی کچھ کم نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گھروں اور سکول کی سطح پر بچوں کی سخت قسم کی تربیت کی جاتی تھی کہ وہ جھوٹ،دھوکا دہی، چوری اور شوبازی وغیرہ جیسی حرکات سے دور رہیں، تمیز تہذیب اور آداب کی تربیت کا بھی خصوصی خیال رکھا جاتا تھا۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ موجودہ نسل کی جو فصل پک کر تیار ہوئی ہے وہ ان لوازمات سے بالکل عاری ہے۔
سڑکوں پر دیکھیں تو ہر کوئی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر آمادہ نظر آتا ہے۔ عام شہری تو ایک طرف قانون نافذکرنے والے بھی قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اکثر پولیس والے اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹیں نیلے اور سرخ رنگ میں بنواتے ہیں تاکے سب کو پتا لگے کہ یہ کسی پولیس والے کی گاڑی ہے پھر رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے پولیس کا سٹکر بھی لگا لیتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرے یا نہ کرے لیکن ہمارے یہ شیر جوان اس سے بھی باز نہیں رہ پاتے۔
ہمارے سیاستدانوں کی توبات ہی نہ پوچھیں کسی اور بات میں ہونہ ہو شو بازی میں پوری قوم کو پیچھے چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ پر نمبر چھوٹا اور ایم پی اے یا ایم این اے بڑا لکھا ہوتا ہے بلکہ بعض مہربان تو نمبر لکھواناہی گوارانہیں کرتے اور اپنے سیاسی عہدہ کا لکھا جانا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ ہوتے ہوتے اس قسم کی شوبازی اب ارکان اسمبلی سے نیچے پھسلتی ہوئی ٹاؤن اور یونین کونسل کے عہدیداران تک بھی پہنچی ہے۔
اول تو ہماری ٹریفک پولیس کے جانبازیہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کا کیا پروٹوکول ہے لہذا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، کالے شیشوں اور خلاف قانوں نمبر پلیٹوں والوں کو ویسے ہی نظر انداز کردیتے ہیں۔ اور اگر کبھی کسی قسمت کے مارے نے کوئی ایکشن لینے کی کوشش کی تو سب سے پہلے تو سڑک پر ہی اس کی اچھی درگت بنتی ہے اور اس کے بعد، ویسے کبھی اسمبلی کی کاروائی
میں حصہ لیا ہو یا نہ لیا ہو، کسی بھی ایسے واقعہ پر تحریک استحقاق ضرور پیش کر دی جاتی ہے اور بات اس بے چارے پولیس افسرکو معطل کرنے یا کسی دور دراز مقام پر ٹرانسفر کرنے پر ختم ہوتی ہے۔
اگر میں اپنے شعبے کی بات کروں تو سڑک پر چلنے والی اکثر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر پریس لکھا نظر آتا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے گویا آدھا شہر صحافت کے شعبے سے منسلک ہو گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نا صرف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے دفاترمیں کام کرنے والے ہر شعبے کے لوگ اپنی سواری پر پریس لکھوا لیتے ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ بھی اس قسم کی نمبر پلیٹ لگوانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، تمام ہاکر حضرات کی موٹر سائیکلوں پر بھی پریس لکھا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ چھاپے خانوں میں کام کرنے والے بھی اپنے آپ کو پریس کی کیٹیگری سے باہر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک مزیدار واقعہ جو میرے علم میں آیا اس کے مطابق ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کسی ایسے سوار کو روک لیا گیا جس کی موٹر سائیکل پر پریس لکھا ہوا تھا۔ فرد جرم عائد کرنے کے بعد سرکاری پیادے نے موٹر سائیکل سوار سے سوال کیا کہ کونسے اخبارمیں کام کرتے ہو؟ تو لحاجت میں اس شخص نے جواب دیا جناب کسی اخبار میں نہیں۔میں تو ایک دھوبی ہوں کپڑے پریس کرتا ہوں اس لیے موٹر سائیکل پر پریس لکھوا لیا ہے۔
میں ایک بات سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ ہمیں اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر، پریس، پولیس وغیرہ وغیرہ لکھوانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔اس کے علاوہ پریس کا کارڈ بنوانے کے لیے ہر کوئی مرا کیوں جا رہا ہوتا ہے۔ میں نے اس قسم کی کوششوں میں مشغول اکثر نوجوانوں سے سوال کیا ہے کہ یہ پریس کا کارڈبنوا کر تم کرو گے کیا؟ تو جواب آیا کہ پولیس والے بہت تنگ کرتے ہیں انہیں پریس کارڈ دکھاکر اپنی جان چھڑوا لیں گے۔
اگر میں اپنے ذاتی تجربے کی بات کروں تو اپنے تیس سال کے کیرئیر میں ابتدائی چند سالوں کو چھوڑ کر میں نے کبھی آفس کارڈ نہیں بنوایا (اس عرصہ میں کئی وہ سال بھی شامل ہیں کہ جب میں خود کارڈ جاری کرنے کا مجاز تھا)، میں نے اپنے کیرئیر کے زیادہ تر حصے میں نائٹ ڈیوٹی کی ہے یعنی رات کو تقریباً اڑھائی تین بجے دفترسے فارغ ہو گھر جاتا تھا۔ الحمداللہ اس سارے عرصہ میں باوجود اس کے کہ میں رات کے آخری پہر میں سفر کرتا تھا مجھے کبھی بھی کسی پولیس اہلکار نے ناجائز طور پر تنگ نہیں کیا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مجھے کونسا ایسا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے یا میری گاڑی پر کونسا جھنڈا لگا ہوا ہے کہ تیس سال میں مجھے کسی کبھی آفس کارڈبنوانے یا گاڑی پر پریس لکھوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اگر میرے جیسے عام انسان کو رات کے پچھلے پہروں میں سڑکوں پر پھرنے کے باوجود کسی نے ناجائز تنگ نہیں کیا تو کسی اور کو بھی کوئی تنگ نہیں کیا جانا چاہیے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنے حقوق کو پہچانیں، اس بات کو سمجھیں کے اپنی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر کوئی خاص رنگ کر لینے یا اس پر کچھ لکھوا لینے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ہمارے ہاں وی آئی پی کلچر کے خلاف بھی بہت باتیں ہوتی ہیں۔ اگر ہم واقعی وی آئی پی کلچر کے خلاف ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ بالا حرکتیں بھی وی آئی پی کلچر کا حصہ نہیں ہیں؟ اگرہیں تو ہم اس کا حصہ بننے سے انکار کیوں نہیں کرتے؟
سماج کی برائیوں کے خاتمے کا آغاز کہیں سے تو ہونا ہے کیوں نہ ہم اپنی ذات اور اپنے گھر سے کر لیں۔ پولیس اور دیگر ادارے جن کے بارے میں ہر وقت شکایات سننے میں آتی ہیں ان اداروں میں کام کرنے والے کوئی باہر سے تو نہیں آئے، یہ ہمارے ہی گھروں کے افراد ہیں جو تربیت میں کوئی کمی رہ جانے کی وجہ سے اپنے ہم وطنوں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو کو حلال اور حرام اور اچھے اور برے کا فرق سمجھائیں گے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ کل کو وہ کسی ذمہ دار عہدہ پر فائز ہو کر عوام کے لیے پریشانی کا سبب بنیں؟شائد ایک صحت مند معاشرہ قائم کرنے کے لیے بنیادی تربیت کا صحیح رخ متعین ہونا بنیادی بات ہے۔