دریاؤں، نہروں، جھیلوں اور چشموں کا ہماری تہذیب و ثقافت میں ایک تاریخی مقام رہا ہے۔ ان کے سینے ماضی کی کہانیوں کا ذخیرہ ہوتے ہیں۔ ان کے کناروں پر جنم لینے والی کہانیاں سینہ در سینہ منتقل ہوتی روایات کا ایسا خزانہ ہوتی ہیں جن کو بعد میں آنے والی نسلیں گہرے جذباتی انداز میں یاد کرتی ہیں۔ پانی زندگی کی علامت نہیں بلکہ زندگی کی ضمانت ہے جس کے بغیر انسانی بقا کا تصور ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر دریا اور نہر کی کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے کہانی کا لفظ اپنے اندر رومانویت اور عشق و محبت کو سمیٹے ہوئے ہے کیونکہ قدیم داستانیں محبت کے ذکر کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھیں۔
اس پس منظر میں جب ہم لاہور کینال پر نظر ڈالتے ہیں تو انسانوں کے تیز رفتار ہجوم کے سوا نہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا ویسے تو شہر لاہور اور نہر لاہور آپس میں لازم و ملزوم ہیں ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی باہر کا آدمی لاہور آئے اور اس کا واسطہ اس نہر سے نہ پڑے اس نہر کو لاہور میں ایک لینڈ مارک کی حیثیت حاصل ہے اس نہر کو لاہور کی جغرافیائی ڈائریکٹری میں اہم مقام حاصل ہے کسی صبح کے بھولے ہوئے کو راستہ بتانے والے سب سے پہلے یہ سمجھاتے ہیں کہ آپ نے نہر کے کسی حصے سے کس طرف مڑنا ہے۔ ’’نہرو نہر‘‘ ایسا منتر ہے کہ راستہ ڈھونڈنے والے کی ساری مشکلیں آسان کر دیتا ہے۔
اس نہر کے بارے میں ہم نے سنا ہے کہ یہاں کبھی جگنوؤں اور تتلیوں کے مسکن تھے شام ہوتے ہی جگنوؤں کی روشنی سے دونوں کنارے جگمگا اٹھتے تھے۔ درختوں کی لمبی قطاریں طرح طرح کے پرندوں کے نغموں سے گونجتی تھیں۔ مناظر فطرت کی دلکشی مکینوں کے لیے مقناطیسی کشش رکھتی تھی جب دن ڈھلے شہری اپنے کاموں سے فراغت کے بعد نہر کا رخ کرتے اور بچے اور بڑے نہر میں نہانے کا لطف اٹھاتے اور عورتیں کناروں پر اپنے پاؤں پانی میں لٹکا کر بیٹھ جاتیں چاندنی راتوں میں نہر پر آنے والوں کی تعداد عام دنوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ دور سے یک رویہ سڑک پر گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز تانگے کے پہنچنے سے پہلے ہی دیکھنے والے کے تجسس
میں اضافہ کرتی تھی کہ یہ کس کی سواری آرہی ہے اور یہ آواز تانگے کے گزرنے کے بعد بھی بڑی دیر تک کانوں میں رس گھولتی تھی۔ مگر یہ سب چیزیں آج ہوا ہو چکی ہیں اور ماڈرنائزیشن نے نہر سے اس کا قدرتی حسن چھین لیا ہے۔
یہ نہر اب اس میٹرو پولیٹن شہر کے لیے محض ایک راہداری میں تبدیل ہو چکی ہے ایک تیز رفتار گزر گاہ جسے لاہور کی شہ رگ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ فیض مرحوم نے کہا تھا کہ جو راہ چمن کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہیں مگر آپ لاہور میں ہوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہو تو جو راہ جدھر بھی جاتی ہے نہر سے گزر کر جاتی ہے ۔ شہر کی آبادی میں بے تحاشا اضافے کے بعد شہری زندگی کے اس ارتقائی دور میں اب جگنوؤں اور تتلیوں کی جگہ پٹرول کے دھوئیں اور گاڑیوں کے شور نے لے لی۔ پرانے زمانے میں لوگ چہل قدمی کے لیے نہر کا رخ کرتے تھے۔ یہاں آکر زندگی کی رفتار دھیمی ہو جاتی تھی۔ اب جسے جلدی ہو وہ نہر کا رخ کرتا ہے تا کہ دوسروں سے پہلے پہنچ جائے نہر پر آکر گاڑی موٹر سائیکل اور رکشہ کی رفتار پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔ جدید ماڈل کی گاڑیوں میں کروز سسٹم ہے۔ اب گاڑی تیز کرنے کے لیے سپیڈ پر پاؤں کا دباؤ بڑھانا نہیں پڑتا۔ یہ کام ایک بٹن دبانے سے ہو جاتا ہے۔ پہلے تانگے کو لوگ جس انداز سے دور سے دیکھنا شروع کرتے تھے اب اس اشتیاق کی جگہ پروٹوکول کی گاڑیوں نے لے لی ہے جس میں وزراء سفر کرتے ہیں آگے پیچھے پولیس کی سائرن بجاتی گاڑیاں ہوتی ہیں نہر پر یہ سلسلہ دن بھر بلکہ دن رات چلتا رہتا ہے۔ گردش زمانہ اتنی بے حس ہے کہ نہر سے رومانویت یا مظاہر فطرت کا کوئی تصور نہیں ہے کہ جہاں کوئی تو سٹوری جنم لے سکے یہاں تو سٹوری کی جگہ حادثات نے لے لی ہے۔ نہر کی خبریں ٹریفک بلاک یا حادثے تک محدود ہو گئی ہیں۔
لاہور ادب اور ثقافت کا سب سے بڑا مرکز ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ لاہور کینال پر کوئی ایسا مقبولِ عام گانا یا غزل نہیں لکھی گئی جو ضرب المثل کا درجہ حاصل کر سکے ۔ ادب کی زبان میں فکری کسمپرسی یا قحط الرجال ہی کہا جا سکتا ہے بڑی تگ و دو کے بعد ملکہ ترنم کا ایک گیت ’’سانوں نہر والے پل تے بلا خورے ماہی کتھے رہ گیا‘‘ ہمیں ملتا ہے لیکن پتہ نہیں وہ گانا شاعر نے کس نہر کے بارے میں لکھا تھا۔ شاید ہمارا ادب مقامی حالات و واقعات یا مقامات کی تصویر کشی سے قاصر ہے۔ لاہوری اہل ادب سے تو عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی سبقت لے گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ قمیص تیری کالی تینوں لے کے جانا اے میانوالی اسی طرح انہوں نے عیسیٰ خیل کے بارے میں بھی گانا بنایا تھا کہ تم پنڈی اور پشاور تو بہت جاتے ہو حالانکہ عیسیٰ خیل بھی دور نہیں ہے۔ استاد دامن اگر زندہ ہوتے یا ان کے دور میں کینال روڈ کی وہ اہمیت ہوتی جو آج ہے تو اس پر ضرور لکھتے ان کے دور میں شاید ’’نہروں پار‘‘ نئی بستیاں آباد کرنے کا رجحان ابھی شروع نہیں ہوا تھا اور یہ نہر لاہور کے مرکزی علاقے سے باہر ہوا کرتی تھی لاہور پر ان کی پنجابی نظم ملاحظہ کریں۔
تینوں دساں میں شہر لہور اندر
لکھاں بوہے تے لکھاں ای باریاں نیں
جناں اٹاں تے رکھ گئے پیر عاشق
اویو ٹٹیاں تے باقی ساریاں نیں
جیہڑیاں بہندیاں نال اپنے سجناں دے
اویو ویاہیاں تے باقی کنواریاں نیں
کہتے ہیں کہ مصر کی نہر سویز بحیرئہ روم اور بحیرئہ احمر کو آپس میں باہم ملانے کے لئے بنائی گئی تھی جس سے بحری آمدورفت میں سیکڑوں میل کا سفر کم ہوگیا تھا اس کے برعکس لاہور کینال جو تیزرفتار ترقی میں اپنا نام تک کھو چکی ہے اس نے نئے اور پرانے لاہور کے درمیان ایک بارڈر کا کردار ادا کیا ہے۔ نہروں پار والا لاہور DHA اور بحریہ ٹائون جیسے ہائی پروفائل پوش علاقوں کا شہر ہے جہاں کے باسی پرانے لاہور والوں کو کمی کمین سمجھتے ہیں گویا لاہور کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی یہ نہر Haves & Haves Not کے درمیان برلن وال کا درجہ حاصل کر چکی ہے جسے موجودہ حالات میں ایک بنچ مارک کی حیثیت حاصل ہے۔ ’’نہروں پار‘‘ والے لاہور کے میرج بیورو والے اگر کوئی پروپوزل لے کر جاتے ہیں تو لڑکے کے کوائف سے پہلے انہیں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ لڑکا رہتا کہاں ہے برلن وال سے اس طرف یا اُس طرف۔