آج سے تقریباً بیس سال قبل انجمن حمایت اسلام کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے میں نے ذکر کیا تھا کہ علم کے بارے میں حضرت علی ہجویریؒ کاقول ہے کہ انسان جس پیشے کے ساتھ منسلک ہو، اس کے بارے میں اتنا علم حاصل کرے، کہ اسے اوج کمال تک پہنچا دے، کیونکہ انسانی عمر چونکہ محدود و مختصر ہوتی ہے کہ مختلف علم کے بارے میں انسان خود کو درجہ کمال تک کما حقہ نہیں پہنچا سکتا شومئی قسمت کے میرے بعد جناب ایس ایم ظفر نے تقریر کی، اور انہوں نے اس رائے سے قدرے اختلاف کیا، چونکہ ان کی تقریر بعد میں تھی، لہٰذا میں اپنے نکتہ نظر کی کھل کر وضاحت نہ کرسکا، اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد ایک دن جب کہ میں خود پاکستان ٹیلی وژن سے خبریں پڑھ رہا تھا، تو ایسی خبرپڑھنے کا اتفاق ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس خبر کا تعلق بھی اس تقریب کا تسلسل ہے خبر یہ تھی کہ اس وقت کے پنجاب ٹیکسٹ بورڈ بک نے پانچویں تک کے بچوں کے لیے والدین، اور بچوں کے ایک دیرینہ مطالبے کو اس صورت میں پورا کیا ہے کہ بھاری بھر کم بچوں کے بستوں کا بوجھ کم کرکے تمام مضامین کی کتابوں کو یکجا کردیا ہے، بلکہ ایک کتاب کی صورت میں اکٹھا کرکے، اور کتاب کی قیمت بھی ڈیڑھ دو سو کے بجائے بیس سے پچیس روپے کردی گئی ہے، مجھے ایسے محسوس ہوا کہ چلیں اتنی دیر کے بعددرست فیصلہ تو ہوا جس پر خاصے عرصے پہلے عملدرآمد ہوجانا چاہیے تھا۔
قارئین اتنے لمبے عرصے کے بعد یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ میرا پوتا، محمدعلی، جو اس وقت گیریژن اکیڈمی میں صرف کلاس 1میں زیرتعلیم ہے، اس نے اپنے والد کو کہا، کہ آپ میرے بیگ کو اٹھا سکتے ہیں، میں نے دیکھا کہ محمدعلی کے باپ کو بھی معصوم بچے کا بستہ اٹھاتے ہوئے دقت ہورہی ہے، تو وہ مسکرایا، اور کہا کہ بابا میں بھی اسے نہیں اٹھا سکتا، میں ایسے کرتا ہوں، میں بیٹھ کر دونوں بازواس میں پھنسا کر اٹھتا ہوں، تو پھر اٹھا سکتا ہوں۔
خیر قارئین کرام ایسا کرنا پہلے ایسے ممکن نہیں ہوا تھا، کہ ہمارے ہاں جو اصول ایک دفعہ رائج ہوجائے دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے، بغیر تحقیق وجستجو کے عرصہ بعد بھی اسی پر عمل پیرا ہونے کی پالیسی پر کاربند رہا جاتا ہے، بصورت دیگر محنت ومشقت اور عرق ریزی سے بچنا ہماری قوم میں اس حدتک سرایت کرگیا ہے کہ سست روی اور کاہلی ہماری طبیعت اور عادتوں کا خاصہ بن گئی ہے۔
سی ایس پی کلاس افسران کے بارے میں متضاد رائے، اور متصادم تبصرے ضرور متحرک رہے ہیں، مگر کبھی کبھی مثبت رائے انتہائی حدتک مؤثر اورمناسب لگتی ہے، اس کی جھلک اس وقت پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے چیئرمین کی صورت میں اطہر طاہر کا وجود تھا، جوکہ خود کئی کتابوں کے مصنف اکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے اور بینظیر بھٹو شہید کے کلاس فیلو تھے، اور کسی زمانے میں نیشنل کالج آف آرٹس میں شعبہ تدریس سے بھی کچھ دیرر تک منسلک رہے تھے، ان کو پڑھائی کا اس قدر شوق تھا کہ حکومت نے پڑھنے کیلئے لندن بھیجنے سے جب لیت ولعل کیا، تو انہوں نے بلادھڑک استعفیٰ کی پیشکش کردی تھی، پڑھائی کی خاطر ہم نے تو آج تک کسی کوڈی ایم جی گروپ چھوڑتے نہیں دیکھا، بہرحال عوام نے بچوں کے بستوں کا بوجھآدھا کرنے کے لیے شکر بھی ادا کیا تھا اور چیئرمین نے 643ملین روپے کی والدین کو کتابوں کے لیے سبسڈی بھی دی تھی، اس طرح سے انہوں نے اس بیانیے کی بھی تصدیق کردی ہے، کہ علم کا میدان بہت وسیع ہے، اور عمر مختصر، لہٰذا تمام علوم کا حاصل کرنا، اتنا ضروری ہے جتنا شریعت سے متعلق ہو، مثلاً علم نجوم اتنا، کہ رات کے عالم کا تعین اوقات سے ہوسکے۔ طب اتنی کہ صحت کی حفاظت ہوسکے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان لوگوں کی برائی بیان فرمائی ہے، جو بے نفع علم کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں ،حضور ؐ کا فرمان ہے، اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اس علم سے جو نفع نہ دے کیونکہ تھوڑے علم پہ ہی زیادہ عمل ہوسکتا ہے، اور علم کو ہمیشہ عمل کے دوش بدوش ہونا چاہیے، حضورؐ کا یہ بھی فرمان ہے، کہ بے علم عبادت کرنے والا گدھے کی مانند ہے، غرضیکہ عمل کی بنیاد علم پر ہے ان کی تفریق جہالت ہے۔ خدا کا علم اس کی صفت ہے، لوگوں سے پرہیز، غافل علماء سے خوشامد، اور جاہل صوفیوں سے دوری، دراصل راہ نجات ہوتی ہے، غافل علماء وہ ہوتے ہیں، جو دنیا کو اپنا قبلہ بنالیتے ہیں، اور شریعت سے راہ آسان تلاش کرکے بادشاہوں ،حکمرانوں اور ظالموں کی ترکش شروع کردیتے ہیں، ان کے دروازوں کی خاک چھانتے نظرآتے ہیں، اور اپنی عقل ودانش کے تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں، حالانکہ ایسا کرنا دائرہ علم سے باہر ہوتا ہے، علم تو وہ ہوتا ہے، جس سے جہالت ختم ہو جاتی ہے، مگر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ان کی ہوس کے مطابق ہو تو اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں، اگر وہ ان کا مخالف ہو تو اس کی مذمت شروع کردیتے ہیں، چاہے وہ حق وصداقت پر مبنی ہو اپنی کارگزاری کا صلہ جاہ وحشمت کی صورت میں طلب کرتے ہیں، ہمارے اسلاف کے بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال مجاہدہ کیا، مگر علم کے مطابق عمل کرنا مشکل ہوتا ہے حتیٰ کہ آگ پر چلنا آسان ہے، مگر کوئی مشقت علم حاصل کرنا اور اس پہ عمل کرنا زیادہ سخت معلوم ہوتا ہے، حصول علم کے بعد عاجزی اور انکساری علم کا حاصل ہوتی ہے، ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ ہمارے طلبا جس قدر علم حاصل کریں اتنا اس پر عمل کریں، تاکہ ہماری نئی نسل ترقی کے نام نہاد دعویداروں کا بااحسن طریق مقابلہ کرسکے اور یورپی آلائشوں سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ ہم نے بات شروع کی تھی، بچوں کے بھاری بستوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت پر، بیس سال پہلے چیئرمین ٹیکسٹ بک بورڈ نے جو قابل تعریف کوشش شروع کی تھیں … ناشران وطن نے ان کے خلاف احتجاج شروع کرکے اور ہنگامے کھڑے کرکے ان کا تبادلہ کرا دیا تھا، اس کے بعد قسم ہے کہ پھر کسی بھی محب وطن ماہر تعلیم نے بچوں کے بستے کا بوجھ ہٹانے کی کوشش بھی کی ہوتو …روز محشر اگر بچوں نے ماہر تعلیم کا گریبان پکڑ لیا، تو پھر وزیرتعلیم پنجاب شفقت محمود صاحب ان کو چھڑواسکیں گے حالانکہ تحریک انصاف میں شفقت محمود قابل تعریف شخصیات ہیں مگر شاید چل چلائو کے دور میں اس جانب توجہ ہی نہ دیں کیونکہ اب تو ان کے اپنے محمد اکرم چوہدری بھی یوٹرن کی بجائے ’’ابائوٹ ٹرن‘‘ لیتے نظر آتے ہیں !
’’وزیر تعلیم جناب شفقت محمود…اور روز محشر‘‘
08:00 AM, 1 Jan, 2022