جواہر لعل نہرو نے قائداعظمؒ کو ’’مین آف ہسٹری‘‘ اس لیے کہا تھا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلیا تھا کیونکہ مسلمان کبھی متحد نہیں ہوئے۔ اسی قائداعظمؒ نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے تمام پاکستانیوں کو ایک جیسا شہری سمجھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ اپنے ماضی کو تبدیل کرتے ہوئے باہم اتفاق سے اس جذبے کے تحت کام کریں کہ آپ میں سے ہرایک خواہ وہ پہلے کسی بھی فرقے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو، خواہ اس کے ماضی میں آپ کے ساتھ جو بھی تعلقات تھے، خواہ وہ کسی بھی مذہب، نسل یا ذات سے تعلق رکھتا تھا اب یکساں حقوق، سہولتیں اور ذمہ داریاں رکھنے والا اس مملکت کا ایک شہری ہے۔ آپ آزاد ہیں، پاکستان کی اس مملکت میں آپ اپنے مندر میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا رنگ و نسل سے ہو سکتا ہے لیکن اس بات کا امورِ مملکت سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں اس بات کو آئیڈیل کے طور پر اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ وہ ہرشخص کا ذاتی اعتقاد ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اِس مملکت کے شہری ہونے کی حیثیت سے۔ قائداعظمؒ نے تمام پاکستانیوں کو ایک بنانے کی
خواہش کی مگر ہم نے اُن کی خواہش کو رد کرتے ہوئے بہت سے تفرقے پیدا کرلیے۔ قائداعظمؒ نے تمام پاکستانیوں کو ایک جیسا معاشی نظام دینے کا حکم دیتے ہوئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے نے معاشرے کے غریب ترین طبقے کو بہت متاثر کیا ہے، خاص طور پر وہ جن کی آمدنی مخصوص ہے بہت مشکل میں ہیں اور معاشرے میں موجود بے چینی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ حکومتِ پاکستان کی پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ قیمت کا تعین ایسے درجے پر کرے جو اشیاء کو پیدا کرنے والوں اور انہیں استعمال کرنے والوں کے لیے یکساں طور پر جائز ہو۔ قائدؒ نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ کی کوششیں اسی سمت کی طرف ہوں گی تا کہ اس مسئلے کا کامیابی سے حل نکالا جاسکے۔ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے تحقیقی شعبے کے کام کو خاص دلچسپی سے دیکھوں گا جس میں بینکنگ کے طریقہ کار کو اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظریات کے مطابق بنانے پر کام کیا جائے گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے حل نہ ہونے والے مسائل پیدا کئے ہیں۔ معاشی نظام کے بارے میں مغربی نظریات کو اپنانے اور اُن پر عمل کرنے سے ہم اپنے لوگوں کو خوش اور مطمئن بنانے کا مقصد حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنے طریقے سے کام کرنا ہے اور دنیا کو ایسا معاشی نظام دینا ہے جو اسلام کے ان حقیقی نظریات پر مبنی ہو جس میں سماجی انصاف اورتمام انسانوں کے لیے برابری کے اصول ہوں۔ اس طرح ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کرسکتے ہیں اور سب کو امن کا پیغام دے سکتے ہیں۔ یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہم انسانیت کی فلاح و بہبود کرسکتے ہیں اور اُسے خوشحال بنا سکتے ہیں۔ قائداعظمؒ تمام پاکستانیوں کو ایک جیسا معاشی نظام دینا چاہتے تھے مگر ہم نے اُن کی خواہش کو رد کرتے ہوئے معیشت کا طبقاتی نظام دیا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح نے بڑے عرصے کی مشکل محنت کے بعد دو حصوں پر مشتمل ایک ملک بنایا۔ ہم نے بڑی آسانی سے ایک پاکستان کو دو علیحدہ ملکوں میں کردیا۔ اپنی ساری زندگی ہند کے مسلمانوں کو ایک بنانے والے ’’مین آف ہسٹری‘‘ کی زندگی ختم ہوتے ہیں ہم نے انہیں دو علیحدہ علیحدہ فرقوں کی شخصیت کے طور پر بانٹ دیا۔ ان کی دو نماز جنازہ ادا کی گئیں۔ ایک شیعہ مسلک کے تحت گورنر جنرل ہائوس کے موہٹا پیلس میں پڑھی گئی جس میں یوسف ہارون، ہاشم رضا اور آفتاب حاتم علوی سمیت کئی لوگ شامل ہوئے جسے سیدانیس الحسنین نے پڑھایا جبکہ وزیراعظم لیاقت علی خان بلڈنگ کے باہر منتظر رہے۔ شیعہ نماز جنازہ کے بعد دوسری نماز جنازہ دیوبندی مسلک کے رہنما علامہ شبیر احمد عثمانی کی امامت میں ادا کی گئی۔ اگر غور کریں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ قائداعظمؒ محمد علی جناح نے معیشت، سماجی انصاف اور مذہب سمیت ہر معاملے میں ہمیںایک ہونے پر زور دیا مگر ہم نے ان کی نماز جنازہ کے ذریعے ان کی شخصیت کی پہچان بھی دو حصوں میں کردی۔