فاروق اقدس
کیا نئے سال کے دوسرے ماہ کا آغاز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیلئے سیاسی مصائب، آزمائشوں اور امتحان سے ہونیوالا ہے مخالفین انکے سیاسی مستقبل کے حوالے سے جو دعوے، پیشگوئیاں اور انکے رفقاء اپنی قیادت کے بارے میں سرگوشیوں میں جن خدشات اور انکے اہم فیصلوں کے پیش نظر مایوسی کا اظہار کرتے آئے ہیں کیا انکی عملی شکل سامنے آنے کا وقت تو نہیں آگیا ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ سوچ بلاوجہ پیدا نہیں ہو رہی بلکہ اسکا ایک قابل فہم اور منطقی تناظر بھی موجود ہے جن میں باالخصوص ان کیخلاف عدالتوں میں دائر بعض اہم مقدمات اور ریفرنس فیصلوں کے منتظر ہیں جن پر اہم پیشرفت کا آغاز ہوا ہےکل ہی توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ایک عدالت جس نے سابق وزیراعظم عمران خان کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں طلب کر رکھا تھامگر وہ پیش نہیں ہوئے۔
عدالتی احکامات کو نظرانداز کرنے اور عملدرآمد پر لیت ولعل سے کام لینے پر الیکشن کمیشن کے وکیل کی استدعا پر عدالت نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری تو جاری نہیں کئے تاہم فرد جرم عائد کرنے کیلئے 7 فروری کی تاریخ مقرر کر دی ہے جبکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں وہ عبوری ضمانت پر ہیں گوکہ ضمانت میں چند دن کی توسیع تو کردی گئی ہے تاہم جج نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر 10 فروری کو عمران خان عدالت میں پیش نہ ہوئے اور کوئی نئی درخواست لانے یا عدالتی حکم کو نظرانداز کرنے کے مترادف کوئی قدم اٹھایا گیا تو ضمانت خارج کردینگے۔
ان عدالتی فیصلوں کے بعد تمام دن عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی کے حوالے سے قیاس آرائیاں اور امکانات زیربحث رہے دوسری طرف ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں جو اب خبروں کی شکل میں سامنے آرہی ہیں کہ عمران خان ،جو خود کو پیش آنیوالے حادثہ کے بعد لاہور میں واقع اپنے گھر زمان پارک میں منتقل ہوگئے تھے نے بنی گالہ منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔