کیا کہا جائے کیا لکھا جائے کس موضوع کو زیربحث لایا جائے، کون سا موضوع عوام کے حوالے سے اہم ہے کس قومی اہمیت کے مسئلے پر بحث کی جائے۔ کس ایشو پر تنقید کی جائے، کس پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے جائیں۔ یہ سب کچھ گڈمڈ ہو چکا ہے۔ ہر موضوع اہم ہے، فوری توجہ چاہتا ہے، عوام کی ضرورت ہے، عوام کا مسئلہ ہے، ہر مسئلہ قومی سلامتی اور ریاست کی بقا سے جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیاست ہے تو گدلا چکی ہے۔ سیاستدانوں کی لڑائی بھڑائی نے مطلع گدلا کر دیا ہے ہر طرف بدتہذیبی کا راج ہے۔ بدکلامی ہو رہی ہے۔ دشنام طرازی ہے، کوئی زیادہ کر رہا ہے کچھ کم ہیں لیکن سیاست مکمل طور پر آلودہ ہو چکی ہے۔ معیشت ہے کہ بس ڈوبتی نظر نہیں آ رہی ہے بلکہ ڈوب چکی ہے۔ کشتی ڈوبنے کا شاید وہ اثر نہیں ہوتا جو جان بچ جانے کی امید کے خاتمے کا ہوتا ہے۔ ہماری قومی معیشت 300 ارب ڈالر سے زائد کا حجم رکھتی ہے ہم نے 7500 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے اور چھ ماہ گزر جانے کے بعد ہم نصف ہدف تقریباً حاصل کر چکے ہیں ہماری زرمبادلہ کی آمدنی مختلف ذرائع سے 60/50ارب ڈالر سالانہ پر کھڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے اخراجات 80 ارب ڈالر سے متجاوز ہوتے نظر آ رہے ہیں اس لئے ہم مفلس نظر آ رہے ہیں۔ 230 ملین افراد پر مشتمل افراد کی آبادی میں 70 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو دنیا میں سب سے بلند شرح ہے اتنی زیادہ نوجوان افرادی قوت پاکستان کے لئے نعمت عظیم ہے معاش تعمیروترقی کے لئے مطلوبہ عوامل ہمارے پاس موجود ہیں لیکن ہم پھر بھی ایک ایک ارب ڈالر کے لئے دربدر پھر رہے ہیں۔ ہماری قومی خودی ٹکاٹوکری ہو چکی ہے۔ ہم اغیار کے محکوم ہو چکے ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں فٹ ہو چکے ہیں۔ 12 مئی 2019 کو وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے فنڈ سے 3 سال میں 6 ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ ہونے کا اعلان کیا۔ پھر 2021 میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے قوم کو معاہدہ بارے کامیابی پر مبارک باد دی۔ لیکن2021 میں حکومت نے خود ہی اس معاہدے پر عمل درآمد سے انکار کر دیا اور آئی ایم ایف پھر ہم سے ناراض ہو گیا۔ ہماری مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔ پھر پی ڈی ایم کی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں زمام اقتدار سنبھالا اور مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کو منانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسحاق ڈار کی انٹری نے معاشی معاملات کو نئی جہت دینے کی کوشش کی فنڈ پھر ناراض ہو گیا اور اب اسے منانے کی نئی جدوجہد میں ڈالر نے جمبو اڑان بھری ہے اور پٹرولیم کی قیمتوں میں تاریخی اضافے نے عوام کے ہوش ہی نہیں فیوز بھی اڑا دیئے ہیں۔
ڈیفالٹ ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ کچھ ماہرین کا تو خیال ہے کہ پاکستان فنی/ تکنیکی طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے اب صرف اعلان کرنا یا ہونا باقی ہے لیکن ”عوام ڈیفالٹ کر چکے ہیں / عوامی معیشت ڈیفالٹ کر چکی ہے“ کے بارے میں دو آرا ہرگز نہیں پائی جاتی ہیں۔ عوام مکمل طور پر معاشی تباہی و بربادی کے مہیب گڑھے میں گر چکے ہیں۔ متوسط طبقہ غریب ہو چکا ہے، تنخواہ دار اور پنشن یافتہ طبقہ بھی غریبوں میں شامل ہو چکا ہے۔ غریب مکمل طور پر پس چکے ہیں۔ آئندہ تین سال کے دوران ہم نے 25 ارب ڈالر سالانہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ ہماری متوقع سالانہ آمدنی 50/60 ارب ڈالر اور اخراجات 80 ارب ڈارل ہیں یہ خسارہ پورا کرنے کی بھی کوئی سبیل نہیں ہے۔ معاملات کو بہتر کرنے کے لئے اخراجات کم کرنے کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔
ہمارے اخراجات میں ایک خرچ ایسا ہے جو کم نہیں ہو سکتا ہے اور وہ ہے قرض ادائیگیوں کا خرچہ اس سال ہم نے اس مد میں 5000 ارب روپے ادا کرنے ہیں یہ خرچ سردست نہ تو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی کم کیا جا سکتا ہے لیکن دوسرا بڑا خرچ دفاعی خرچہ ہے اسے کم کرنے کی سبیل کی جا سکتی ہے ہم اتنی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں اس طرح ترتیب دیں کہ ان مدات پر اخراجات میں کمی ہو سکے۔ ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات درست کریں اور پنگا لینے کی پالیسیاں ترک کر کے بہتر سفارتی و تجارتی تعلقات کے ذریعے معاملات بہتر بنائیں اوردفاعی اخراجات میں کمی کریں کیونکہ اب ایسے اخراجات جاری نہیں رکھے جا سکتے ہیں حد یہ ہے کہ جن افغانوں کی طویل جدوجہد آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہم نے ہزاروں انسانی جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر نقصان اٹھایا آج ان کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ پولیس لائنز مسجد میں خودکش دھماکے نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے ہمارے وزیر دفاع نے واضح انداز میں بتایا ہے کہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر محفوظ پناہ گاہوں کی معاونت حاصل ہے۔ کیا یہ ہماری سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کی صریحاً ناکامی نہیں ہے ایسے حالات میں دفاعی اخراجات کم کرنا خودکشی کے مترادف ہو گا۔
لیکن ایک ایسا خرچہ ہے جو کم کیا جا سکتا ہے اور وہ لازماً کم کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہوگا اور وہ ہے کارسرکار کے اخراجات میں کمی، لازمی کمی کے ذریعے ہم اخراجات میں کمی لا سکتے ہیں۔ مرکز ہو یا صوبائی حکومتیں اپنے اپنے اخراجات میں کمی کی پالیسی اختیار کر کے معاملات میں بہتری کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات طے ہے کہ ہمارے سرکاری محکمے، ہماری وزارتیں ہیں ان کے شاہانہ اور ظالمانہ اخراجات ہیں جو قرض پر چلنے اور پلنے والی قوم کی سرکار کو ہرگز ہرگز زیب نہیں دیتے ہیں انہیں ختم کر کے انہیں حقیقت پسندانہ بنا کر ہم بہتری کی طرف سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔
بہتری اور خودانحصاری کی طرف سفر کا آغاز کرنے کے لئے ہمیں ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرنا ہو گا۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے نیشنل ایکشن پلان مرتب کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کے عزم بالجزم کا اعلان کرنا ہو گا۔ ہماری معاشرتی ترجیحات اور سماجی رویوں کو قومی ضروریات کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ ہم ایک طویل عرصے سے جس طرز زندگی بلکہ جس طرز فکروعمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں وہ قابل عمل نہیں رہا ہے۔ ہمیں اپنا اندازِ بودوباش دستیاب وسائل کے مطابق ترتیب دینا ہوگا یہ اربوں ڈالر کے تیل کی درآمد، لگژری گاڑیوں کی درآمد، کتوں، بلیوں کی خوراک کی درآمد پر زرمبادلہ کے اخراجات کرنے کی عادات ترک کرنا ہوں گی۔
ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ اپنے طرز تعلقات کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ دشمنی اور مسلسل دشمنی کے ساتھ زندگیاں گزارنا ممکن نہیں ہو رہا ہے ہم نے جس حجم کی فوج کھڑی کر لی ہے اب اسے افورڈ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا ہے۔
اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لے کر معاملات کو درست کرنے کی کمر کس لیں وگرنہ ناکامی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔