ایک نظریاتی، اخلاقی اور مالی طور پرکرپٹ قوم تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے، نہیں نہیں، آپ کو نہیں کہہ رہا آپ تو سب کے سب حاجی ثناء اللہ ہیں۔ میں نے آپ کو آئینہ دکھا کے گندی گندی گالیاں نہیں کھانی ہیں، میں تو دور بہت دور کسی اور ہی دنیا کی قوم کی بات کر رہا ہوں جس کے ساتھ آپ اپنی مماثلت تلاش کرنے پر انجام کے ذمے دار خود ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ اس مچھلی نے سر سے ہی سڑنا شروع کیا تھا مگر اب تو یہ پوری مچھلی ہی گل سڑ چکی ہے، بساند مار چکی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کی ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ نے کبھی آئین کااحترام نہیں کیا۔ یہ وہ قوم ہے جس کی عدلیہ کے فیصلے اپنے قیام سے لے کر آج تک قانون کے تابع نہیں ہوئے۔ جس کے منصف بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہتے رہے کہ قانون وہ نہیں جو آئین میں درج ہے بلکہ وہ ہے جو وہ کہتے ہیں۔ اس قوم کی وکلا کمیونٹی جسے آئین اور قانون کا محافظ ہونا چاہیے تھا وہی مظلوم کو ملنے والے انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس قوم کے صحافیوں کو حق اور سچ کی آواز ہونا چاہیے تھا وہ سب کے سب دھڑے باز ہیں۔ اس قوم کے بیوروکریٹس نے ہمیشہ طاقت کے سامنے سرجھکایا ہے۔ا نہوں نے ابھی حال میں ہی تمام پوسٹیں باقاعدہ نیلامی کے ذریعے فروخت ہونے پر بھی احتجاج نہیں کیا بلکہ اس طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے نہ صرف حکمرانوں کو پوسٹوں کا اچھا ریٹ دیا بلکہ اس پر خود بھی اچھا منافع کمایا، کیسے، آپ کو علم ہی ہو گا۔
اس کرپٹ قوم کے ہر شخص اور ہر طبقے کا یہ یقین ہے اور وہ اس پر دلائل کے انبار بھی لگا دیتا ہے کہ وہ بہت نیک اور اچھا ہے جبکہ ساری کی ساری برائیاں دوسروں کی وجہ سے ہیں۔ اس قوم میں سب کے سب حقوق کی بات کرنے والے ہیں مگر کوئی اپنے فرائض کے بارے میں سننا بھی پسند نہیں کرتا۔ سرکاری ملازمین کا حق ہے کہ انہیں اچھی تنخواہ ملے اور بروقت ملے مگر انہیں یہ فرض یاد کروایا جائے کہ انہیں بغیر رشوت اور سفارش کے میرٹ پر کام کرنا ہے، اپنی آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کو ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ سرانجام دینا ہے تو وہ برا منا جاتے ہیں۔ وہاں کی سبزی اور فروٹ منڈیوں میں یہ عام ہے کہ آپ کو جس پھل کا کریٹ خریدنا ہے اس کے اوپر تو بہت شاندار پھل ہوں گے مگر نیچے جاتے جاتے گلے سڑے نکل آئیں گے۔ اس قوم کے دیہاڑی باز خود کو انویسٹر کہتے ہیں۔ یہ قوم اب انڈسٹری نہیں لگاتی کیونکہ انڈسٹری لگانے کے ساتھ ہی اس پر تیس، چالیس محکموں کا حملہ ہوجاتا ہے اور وہ سب کے سب منتھلی لے کر ہی جاتے ہیں۔ اس کا کمال فن تو یہ ہے کہ اس کے پی ایچ اے جیسے محکمے بھی بورڈوں پر رشوت لے جاتے ہیں۔ یہ کرپٹ قوم اب صرف پلاٹ خریدتی ہے اس کی سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت سے وفاقی دارلحکومت جانے والی سڑک کے ارد گرد صرف اور صرف ہاوسنگ سکیمیں ہیں۔ اس کے بے شرم اور کھاو حکمران ملک کے دوسرے بڑے شہر کے ساتھ زرعی زمینیں سرکاری ریٹ پر خرید کے اپنے انویسٹرز کو دیتے ہیں اور اس سلسلے میں عدلیہ کے کوئی ایک دو اچھے فیصلے آبھی جائیں تو انہیں پاؤں تلے روند دیتے ہیں،ان پر اوپر کی عدالت سے حکم امتناعی لے لیتے ہیں۔ اس طرح کی بنانا ری پبلک آپ نے دنیا میں شائد ہی کہیں دیکھی ہو۔
اس قوم کے کسی بندے سے پوچھ لیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ وہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا ہے مگر دوسری طرف اس وقت ٹیکس توجی ڈی پی کی ریشومیں دس فیصد سے بھی کم ہے جبکہ جدید اور مہذب اقوام اس وقت تیس اور چالیس فیصد سے بھی اوپر جا چکی ہیں۔ اس قوم کی تعداد تئیس کروڑ ہے مگر اس قوم کے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والوں کی تعداد اٹھائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے اوراس میں سے ایک تہائی زیرو انکم کی ریٹرن جمع کرواتے ہیں یعنی ڈائریکٹ ٹیکس دہندگان کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے مگر یہ سب لوگ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا جیسی سہولتیں مانگتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ اس قوم پر اس وقت برا وقت آیا ہوا ہے اور اگر اسے ڈالر نہ ملے تو وہ ڈیفالٹ کر جائے گی یعنی معاشی موت مر جائے گی مگر اسی قوم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے عوام کے پاس اس وقت کئی ارب ڈالر موجود ہیں جو انہوں نے منافعے کے لئے جمع کر رکھے ہیں مگر وہ اپنے ملک کو مرتے ہوئے دیکھ کر بھی انہیں نکالنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ان کی رالیں ٹپک رہی ہیں کہ جب یہ ڈالر تین سو روپے سے اوپر جائے گا تو انہیں ہرڈالر پر سو، سوا سو روپے کا منافع مل جائے گا۔ یہ قوم پہلے پلاٹوں میں انویسٹ کرتی تھی مگر اب یہ سونے میں کر رہی ہے اور اس کی وجہ سے سونے کی فی تولہ قیمت دولاکھ روپے سے بھی اوپر چلی گئی ہے، یہ قیمت یقینی طور پر غریب کی بچیوں کی شادی پر پہنائے جانے والے زیورات کی وجہ سے اوپر نہیں گئی۔ اس کے تارکین وطن کو حب الوطنی کے دیوتا بنا کے پیش کیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے اپنی وفاداری کے حلف اپنی مٹی کی بجائے کسی دوسری ملکہ اور کسی دوسرے بادشاہ کے نام پر اٹھائے ہوتے ہیں۔ یہ بھی کمال کرتے ہیں کہ جب اس ملک میں ڈالر کے سرکاری اورہنڈی کے ریٹ میں فرق آیاتو ان کی بھیجے ہوئے ڈالر سرکاری طور پر بیس فیصد کم ہوگئے کیونکہ وہ ہنڈی پر چلے گئے، ہاں، یادآیا اس ملک کا، ملک کی سب سے بڑی عدالت سے تصدیق شدہ صادق اور امین لیڈر، جلسوں میں کھڑے ہو کے کہتا ہے کہ پیسے ہنڈی کے ذریعے بھیجو، اپنے بجلی اور گیس کے بل مت جمع کراؤ، سڑکیں اور شہر بند کردو۔
یہ قوم بجلی اور گیس چوری کو آرٹ سمجھتی ہے۔ اس کرپٹ قوم کا امیر، امیر ترین ہوتاچلا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی سڑکوں پر آج بھی نئی قیمتی گاڑیوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ اس کے تین، چار، پانچ ہزار روپے پر ہیڈ والے ریسٹورنٹس میں بھی بکنگ کے بغیر جانے پر بہت انتظار کرنا پڑتا ہے مگر اسی قوم کے سیکورٹی گارڈز، ڈرائیور وں،، سیلز مینوں اور مزدوروں کی پورے مہینے کی تنخواہ اتنی بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ ان ریسٹورنٹس میں ایک وقت کا کھانا بھی کھا سکیں۔اس کرپٹ قوم کے صرف تین آدمی کرپشن نہیں کرتے۔ پہلے وہ جن کے پاس کرپشن کرنے کا موقع نہیں ہے دوسرے وہ جن کے پاس کرپشن کرنے کی ہمت نہیں ہے اور تیسرے وہ جو سو رہے ہوتے ہیں۔ یہ کرپٹ قوم جب ٹریفک سگنل پر پہنچتی ہے تواس شخص کو بہت بہادر اور ہیرو سمجھتی ہے جو اشارہ توڑ کے نکل جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنے حکمرانوں کو آئین توڑتے دیکھا ہے۔اس قوم کو ٹیکس دینا پڑے تو اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور رشوت دے کر سمجھتی ہے کہ اس نے عقل مندی کی ہے، وہ ٹیکس سے بچ گئی ہے کیونکہ اس قوم کے ٹیکس لینے والے ادارے کے افسران ٹیکس نہ لینے کے طریقوں کے ایکسپرٹ ہیں۔
خیرباتیں تو اور بھی بہت ساری ہیں، بتانا صرف یہ تھا کہ یہ قوم تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔