پاکستان کو مختلف قسم کے دیرینہ اور شدید چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن ان چیلنجوں کی نوعیت اور اقسام میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کاتعلق اُن پالیسیوں سے ہے جن پر پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے عمل پیرا رہاہے۔باالفاظ دیگرموثر پالیسی بنا کر عملی اقدامات کے ذریعے ان چیلنجوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو’’موثر‘‘پالیسی اور اقدامات کے مجموعہ کی باتیں ایک مبہم کتابی گفتگو لگتی ہیں لیکن انسانی ترقی کے تحقیقی ادب میں ایسی پالیسیوں کی واضح تعریف کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر’’وہ پالیسیاں جن کا محورانسانی ترقی کے ذریعے عوامی تحفظ ہو‘‘۔
1994 میں اقوام متحدہ میں ہونے والے مباحثہ میں ڈاکٹر محبوب الحق نے انسانی ترقیاتی رپورٹ (Human Development Report) میں’’انسانی سلامتی‘‘ (human security)کا تعارف کراتے ہوئے اکیسویں صدی میں سلامتی کا تصور پیش کیا جس میںریاستوں کے بجائے افراد اور گروہوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ تاہم اقوام متحدہ کے نظام کو جامع پائیدار ترقیاتی اہداف، جو کہ رکن ممالک میں انسانی سلامتی کے حصول کیلئے کوششوں کو متحرک بنا سکتے ہیں،پر اتفاق کرنے میں دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگا،جس سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں انسانی سلامتی کے حصول کیلئے کوششوں کو متحرک بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
سلامتی کے چار مدارج ہیں جنہیں انفرادی سلامتی (انسانی تحفظ)، ریاستی سلامتی، علاقائی سلامتی اور عالمی سلامتی کہا جاتا ہے یہ سب غیر مخصوص اورغیر واضح طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اگر کسی مرحلہ پر کسی بھی ایک قسم کی سلامتی پر سمجھوتہ کیا گیا ہوتو ان کا باہمی تعلق باقی تمام اقسام کی سلامتی کے حصول کو مشکل بنا دیتا ہے۔عالمی سلامتی کا حصول اقوام عالم ک کی اولین ترجیح ہے۔ یہ عام طور پر اقوام متحدہ کے دائرہ کار میں آتی ہے اور روایتی ’’ریاستی سلامتی‘‘ کے تصور پر مبنی ہوتی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کا ساتھ دیا ہے۔اسی طرح ہمیشہ عالمی برادری کے شانہ بشانہ رہتے ہوئے خطے کے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں بھی لازمی کردار ادا کیا ہے۔ مثلاپاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی کی حمایت کی ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی اور خلیجی ریاستوں کے درمیان حالیہ ’’سفارتی تناؤ‘‘کے دوران غیر جانبدار رہا۔ ریاستی سلامتی کے دفاع کیلئے پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت/حملے کی صورت میں دشمن کومنہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔میرے نزدیک انفرادی یا انسانی تحفظ درحقیقت مندرجہ بالا تینوں سلامتیوں کی بنیاد ہے۔ پاکستان کاآئین ریاست کو اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کا ذمہ دارٹہراتا ہے۔ تاہم مختلف وجوہات(جن میں اشرافیہ کا وسائل اور انتظامیہ پر قبضہ، سماجی و اقتصادی عدم مساوات، اور ماضی میں طویل غیر جمہوری حکمرانی وغیرہ شامل ہیں) کی وجہ سے آئین میں دی گئی انفرادی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا رہا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ انفرادی سلامتی پر سمجھوتے(غربت میں اضافہ، انفرادی حاشیہ بندی اور معاشرتی تقسیم،معاشرے کے اندر لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کے عمل) نے پاکستان کی ریاستی سلامتی کو کمزور کیا۔ اسکی وضاحت کچھ یوں بھی کی جا سکتی ہے:
جب انفرادی عدم تحفظ سے متاثرہ افراد کو کوئی اجتماعی شناخت ملتی ہے(خواہ وہ نسل، مذہب و مسلک، صنف، طبقہ یا علاقائی بنیاد پر ہو) تووہ فطرتاً ایک گروپ کے طور پر اپنے آپ کو ’’غیر محفوظ‘‘تصور کریں گے کیونکہ ان کی اجتماعی شناخت اُس گروپ سے مختلف ہے جن کے پاس سب کچھ ہے۔چونکہ وسائل پر دسترس رکھنے والی اشرافیہ کے پاس ’’سب کچھ‘‘ ہے اور وسائل سے محروم افراد کے پاس ’’کچھ بھی نہیں‘‘۔ لہٰذا دونوں گروپوں کے درمیان ممکنہ تناؤ سماجی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ اگر یہ تناؤپرتشدد ہو جائے تو بنیادی سماجی تانے بانے بکھر سکتے ہیں۔ اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ چند دہائیوں قبل کراچی میںلسانی بنیادوں پر تشدد کو فروغ دینے کیلئے ہمارے بیرونی دشمن اس عنصر کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بلوچستان کی عسکریت پسند قوم پرست تحریکوں کی دہشت گردی کی کارروائیوں کے پس پردہ بھی یہی عنصر کارفرما ہوسکتاہے۔
انسانی سلامتی پر سمجھوتے کے ان اثرات کا نتیجہ سول اور فوجی قیادت کیلئے باعث تشویش تھا۔ اور اس کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کو محفوظ بنانے کے طریقہ کارمیں بتدریج تبدیلی آئی جس کی وجہ سے غیر روایتی سکیورٹی خطرات سے بچاؤپر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔اس تناظر میں اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت نے باضابطہ طور پر شہریوں پر مرکوز’’جامع قومی سلامتی فریم ورک‘‘اپنایا ہے جس نے غیر روایتی عدم تحفظ (انسانی تحفظ) کو پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) کا باضابطہ جزو بنا دیا ہے۔ این ایس پی کے وژن میں کہا گیا ہے کہ ’’کوئی ملک تبھی محفوظ کہلایا جا سکتا ہے جب اس کاسب سے کمزور شہری محفوظ ہو۔ شہریوں کی حفاظت، سلامتی، وقار اور خوشحالی پاکستان کی قومی سلامتی کا حتمی مقصد رہے گی‘‘۔
کثیر الجہتی قومی سلامتی پالیسی کے بنیادی محور اقتصادی سلامتی، داخلی سلامتی، انسانی سلامتی، قومی ہم آہنگی، دفاع اور علاقائی سا لمیت اور خارجہ پالیسی ہیں۔یہ پالیسی میکرو اکنامک گروتھ (قومی وسائل کے حجم میں اضافہ) پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پائیدار اور جامع ترقی کے ذریعے پاکستان کے ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ(پسماندہ) علاقوں کے درمیان سماجی و اقتصادی عدم مساوات اور جغرافیائی تفاوت کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور نسلی، مذہبی، ثقافتی اور لسانی تتنوع کو فروغ دینے سے امیر اور غریب کے درمیان موجود فرق میںواضح کمی آئے گی جس کے نتیجہ میں قومی ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔
چونکہ عالمی سطح پر مسابقتی انسانی وسائل کے بغیر معاشی تحفظ حاصل نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا پالیسی میں سب کیلئے سستی اور معیاری تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ معاشی کمزوری دور کرنے کیلئے کئے گئے سمجھوتے ہماری خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، قومی سلامتی پالیسی بیرونی قرضوں کو کم کرتے ہوئے ملکی پیداوار بڑھانے کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہے۔
NSP کا مقصد توانائی کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے اور درآمدی ایندھن پر پاکستان کے انحصار کوکم کرتے ہوئے قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا اور توانائی کے مقامی وسائل کی ترقی کو ترجیح دینا بھی ہے۔داخلی سلامتی کے حوالے سے قومی سلامتی پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ تمام شہری آئین میں دیئے گئے حقوق سے فائدہ بھی اُٹھا پائیں اور تشدد، انتہا پسندی اور جرائم سے محفوظ رہ سکیں۔ اس عزم کو پورا کرنے کیلئے پالیسی میں ریاست کی رٹ کو یقینی بنانے کو اہمیت دیتے ہوئے دہشت گردی، انتہا پسندی اور پرتشدد قوم پرستی کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ جس کا مقصدم جرائم کو روکنا اور ایک ایسا منصفانہ نظام انصاف قائم کرنا ہے جوشہریوں کے آئین میں دیئے گئے تمام حقوق کے تحفظ کا ضامن ہو۔
این ایس پی کے انسانی سلامتی سے متعلق سیکشن میں نوجوانوں، خواتین اورخواجہ سراؤں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بااختیار بنانے کا عزم کیا گیا ہے۔ آبادی کا انتظام، دیہی معیشتوں میں بہتری، ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ اور آفات کے خطرات کو کم کرنا پالیسی کا محور ومرکز ہے۔ اس پالیسی کا مقصد صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانا اور بیماریوں، وبا ء اوروبا ئی امراض سے نمٹنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانا ہے۔علاوہ ازیں خوراک اور پانی کے تحفظ کو یقینی بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے اس مقصد کیلئے قابل کاشت اراضی میں اضافہ، آب و ہواکے موافق طریقہ زراعت اپنانے، پانی کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے، صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے پائیدار انتظام اور سرحد پار پانی کے حقوق کے تحفظ کے اقدامات پر بھی زور دیاگیا ہے۔
سفارتی محاذ پر قومی سلامتی پالیسی میں عالمی برادری میں پاکستان کے مفادات اور پوزیشن کو محفوظ بنانے کیلئے سیاسی اور اقتصادی سفارت کاری استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس تاثر کوکلی طور پر رد کیا گیا ہے کہ پاکستان عالمی اقتصادی طاقتوں کی ایک نئی سرد جنگ کے درمیان ایک خاص بلاک کی طرف مائل ہے۔ پالیسی میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ پاکستان تزویراتی اور معاشی مفادات پر مشترکہ ہم آہنگی کی بنیاد پر وسیع تر تعلقات کارکی بات کرتا ہے نیزپاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے مسئلے کے ایک درست اور پرامن حل کیلئے اپنے اصولی مؤقف پر سمجھوتہ کئے بغیر قریبی ہمسایہ ملک کے ساتھ باہمی احترام اور خود مختاری کی بنیاد پر تعلقات کو معمول پر لانے اور علاقائی امن کا خواہاں ہے۔
آخر میں قومی سلامتی پالیسی پاکستان کے دفاع اور علاقائی سا لمیت کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کا عزم دہراتی ہے۔ اس کا مقصد مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس (جوہری ڈیٹرنس اور روایتی فوجی صلاحیتوں دونوں) کے ذریعے جنگ کو روکنا اور سائبرسکیورٹی میں اضافے کے ذریعے ہائبرڈ جنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔انفرادی تحفظ کو باضابطہ طور پر قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے اور ایک عملی منصوبہ تیار کرنے کا سہرا بلا شبہ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کے سر ہے جنہوں نے اس پالیسی کی تیاری میں تمام ریاستی اداروں کو ایک لائحہ عمل پر اکٹھا کیاتاکہ تمام فریقین پالیسی اہداف کے حصول کیلئے اجتماعی طور پر کام کریں۔
ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ قومی سلامتی پالیسی اس بات کی عکاس نہیں کہ ہم کہاں کھڑے تھے یا آج کہاں پر ہیں بلکہ پالیسی اس راستے کی نشاندہی کرتی ہے جس پر چل کے ہم اپنی منزل کو حاصل کر سکیں گے۔ اگرچہ یہ ایک طویل اورمشکل راستہ ہے اور اس میں جمود کی حامی قوتیں مزاحم بھی ہو ں گی تاہم یہی راستہ ہماری کثیر الجہتی سلامتی کا ضامن ہے۔