چلتے لمحے امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے جبکہ چین معاشی اور دیگر حوالوں سے امریکہ کی سپریم حیثیت کے لیے کھلا چیلنج بن چکا۔ امریکہ اس لیے سپرپاور نہیں ہے کہ وہ ٹیکنالوجی، سائنس، معیشت، فوجی اور تعلیمی اعتبار و دیگر حوالوں سے دنیا کی قیادت کرتا ہے بلکہ اس کی کبھی نہ ختم ہونے والی حیثیت کا راز ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ٹیلنٹ ہے امریکہ اس کو استعمال میں ضرور لاتا ہے۔ میرٹ، ٹیلنٹ کا استعمال، قانون کی حکمرانی امریکہ کو ساری دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ واحد ملک ہے جس کو Nation of the Nations کا درجہ حاصل ہے۔ امریکی صدر کا انتخاب پوری دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے یوں لگتا ہے پوری دنیا کے صدر کا انتخاب ہے۔ آج امریکہ کو باقاعدہ ایک دنیا کی حیثیت حاصل ہے۔
چین نے 1982 میں اپنے آئین کے ارتقا کی معراج کو پایا اور اپنی معیشت، معاشرت اوج ثریا پر لے گیا۔ چین کاروبار کرتا ہے، امریکہ مدد اور راج کرتا ہے۔ امریکہ دنیا کے زیردست ممالک کی فوج اور بعض اوقات افواج کو ان کے اپنے ملک کے خلاف ہی استعمال کرتا ہے۔ چین نے اپنی فوج کو راز بنا رکھا ہے۔ یہ یاد رہے کہ قانون کی حکمرانی آج دنیا کی ہر کامیاب ریاست کی تابندگی کا راز ہے جبکہ ہمارے ہاں ریاست افراد اور مافیاز کے ہاتھوں کھلونا بنی رہی اور مزید بن رہی ہے۔ ہمارے ادارے افراد کے مزاج کے تابع اور قوانین قومی نہیں ذاتی مفاد کی خاطر بدلتے رہتے رہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شروع سے سن رہے ہیں وطن عزیز نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ وہ شاید اپنے ملک کی تاریخ کو کسی اور ملک کی تاریخ سمجھتے ہیں۔ 1970 سے پہلے یہی کہتے اور سنتے تھے کہ ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔ مگر ایک فرق ہے تب کچھ لوگ حکمرانوں کے تابع چین ہی چین لکھتے اور بولتے تھے۔ قیام پاکستان کے مطالب بدلتے اور بنتے رہے مگر آج لوگ ریڑھی والے سے لے کر ذاتی جہاز والے تک یہ سمجھتے ہیں کہ ملک نازک ترین نہیں فیصلہ کن صورت حال سے دوچار ہے۔ 1958 سے 1970 تک یہ سمجھتے رہے اور سوئے رہے، آنکھ کھلی تو 1971 کا دسمبر آ کر گزر گیا۔ جو ملک کا آدھا بڑا حصہ (آبادی کے اعتبار) سے بھی الگ کر گیا۔ مگر ہم نے کوئی سبق سیکھنا تھا نہ سیکھا۔ یہ شرف ہمارے علمائے دین کو ہی حاصل ہے جو اشتراکیت معاشی نظام نہیں بلکہ اسلام کے خلاف کوئی مذہب یا دین سمجھ بیٹھے یا ثابت کرنے کے درپے ہو گئے۔ یہ بھی مفت میں نہیں باقاعدہ سازش میں شریک ہو کر جبکہ وہ خالصتاً ایک معاشی نظام ہے۔ ایک نظام حکومت ہے جس میں معیشت کے انداز قاعدے اور کلیے مختلف ہیں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب تک تعصب کی عینک اتار کر زمینی حقائق نہیں دیکھتے اور غیر جانبدار تجزیہ نہیں کرتے تب تک رہنمائی نصیب ہو گی نہ اغیار کی غلامی سے آزادی کا منہ دیکھ پائیں گے۔
نظام بدلنے کے درپے ہیں۔ افسوس کہ عوام کے حالات اور مزاج نہ بدلنا، نظام جو بھی ہو گا ناکام ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں نظام افراد کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ مافیاز طاقتور ہیں۔ قانون پر قانون نافذ کرنے والوں کا مزاج حاوی ہے۔ ہمارا ذاتی مفاد قومی مفاد ہے اور قومی مفاد بغاوت اور غداری تصور کیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد وطن عزیز میں حق حکمرانی، اختیارات کی رسہ کشی، سازشوں، ذلالتوں اور رشوت کی نئی جہتیں ایجاد ہوئیں۔ ایسی دھول اڑائی گئی کہ کچھ دکھائی نہ دیا۔ مارشل لا اور صدارتی نظام براہ راست رہے یوں 58 برس صدارتی نظام رہا۔نفرت کی بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں جو آج تک وقفے وقفے سے پھٹ رہی ہیں۔ ہماری تاریخ اقتدار کی رسہ کشی، ایوانوں کی ریشہ دوانیوں اور سٹیک ہولڈرز کی کارستانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس میں ہم نے انمول رہنما کھو دیئے۔ دنیا میں اپنا امیج برباد کر دیا۔ آج حالت یہ ہے کہ ہمارا سربراہ مملکت یا کوئی ذمہ دار کسی بیرون ملک دورے پر جاتا ہے تو یہ کامیاب دورہ صرف امداد کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا ایجنڈا پوری دنیا کو معلوم ہوتا ہے۔
ملک کے ساتھ سب انہونیاں صرف اقتدار کی رسہ کشی، اختیارات میں اضافے، ملکی وسائل پر قبضہ گیری کے لیے کی گئیں۔ آئین، قانون، میرٹ، حب الوطنی سب کے سب نعرے رہ گئے۔ آئین صرف حلف اٹھانے کے لیے، میرٹ صرف سکرپٹ اور حب الوطنی اپنی اپنی ہو گئی مگر موجودہ حکومت نے تو ڈھٹائی کی آخیر کر دی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 117 سے 126 اور پھر 140 ویں نمبر پر لے آئی اور وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ نوے دن میں کرپشن ختم کر دی گئی تھی۔ یہ واحد حکومت ہے جو زمین پر کھڑی ہے، تخت پر بیٹھی ہے اور مریخ سے مخاطب ہے ہر عہدہ، ہر شعبہ انحطاط پذیر ہے۔ زندگی کی ضرورتیں حسرتوں میں بدل گئیں اور یہ ترقی کے دعویدار ہیں۔ عجیب بات ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان جو اب بنک آف آئی ایم ایف بنا دیا گیا ہے، یہ حکومت کا کارنامہ اور الزام اپوزیشن پر ہے۔ ’’نظریاتی‘‘ سیاست دان حق حکمرانی، سول سپرامیسی کے لیے نکلے تھے ۔ حکمران تبدیلی کے دعویدار تھے، ناکامی کا سبب نظام کو ٹھہرانے لگے۔ سول سپرامیسی والے حق حکمرانی کی جدوجہد سے حق اختلاف کی جدوجہد تک آ گئے۔ اب اپوزیشن کرنے کا حق بھی اشارے اور اجازت کا مرہون منت ہو گیا۔ موجودہ حکومت کو اپنی اور عوام کی اتنی فکر نہیں جتنی فکر اس کو اپوزیشن اور اس کی کردار کشی کی ہے۔ عدلیہ کے فیصلے تو مولوی تمیزالدین کیس، بھٹو صاحب کے مقدمہ، نصرت بھٹو کیس، نوازشریف کے مقدمہ سے لے کر قاضی فائز عیسیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے تک یاد رکھے جائیں گے۔ سیاسی جدوجہد میں پیپلز پارٹی کے کردار کو نکال دیں تو سوائے ڈرائنگ روم کی سازشوں اور حکمرانی کی خاطر طاقتوروں کی دلالی کے سوا کچھ نہیں۔ آج حق حکمرانی حق اختلاف کے حصول پر مینج ہو رہا ہے۔ نظام کوئی بھی نہیں چلے گا، نظام کے بدلنے سے اگر عوام کے مزاج اور حالات نہیں بدلتے تو نظام فارغ ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو اپنا آپ خود بدلنا ہو گا۔ انسان پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے، شخصیت پسندی اور اس کی پیروی کی جا سکتی ہے کیوں کہ شخصیت پورے کردار کا احاطہ کرتی ہے۔ فیصلہ سازوں نے ہر سطح پر مایوسی، گمراہی، کرپشن اور لاقانونیت کو بطور پالیسی رائج کر دیا۔ بات ان ممالک کی کرتے ہیں جن میں جانوروں کے بھی حقوق ہیں اور ہمارے ہاں انسانوں کے حقوق ناپید ہیں۔ ایک میگا تھیٹر، نوٹنکی اور قسط وار ڈرامہ چل رہا ہے۔ مگر یاد رہے کہ اب نازک صورت حال فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ حکمران طبقوں نے اس ملک کے امکان سے کھلواڑ کیا ہے۔ آج تحریک آزادی کے بعد جدوجہد حق حکمرانی اور سول سپرامیسی سے حق اختلاف (حزب مخالف کے کردار) کی آزادی تک آ گئی۔ لہٰذا نظام نہیں انسان بدلو، عوام بدلو، کردار سازی کرو کہ حکمران سازی نہیں، انسان سازی اور عوام سازی قوم سازی کرنا ہو گی۔ ورنہ قدرت نے اپنا نظام چلانا ہے، اقوام سے لے کر افراد تک جو بھی راستے میں آیا کٹ جائے گا۔ حالات حاضرہ پر میرا تجزیہ ہے کہ موجودہ حکومت کے درمیان سے تلوار گزر چکی ہے جب چلے گی، قدم اٹھائے گی تو دو ٹکڑے ہو جائے گی۔ پھر پتہ چلے گا بونا کہنے والے بونے ہیں یا بلاول اور مریم نواز بونے ہیں۔ سٹیٹ بنک بل حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔