میراگائوں چونترہ سڑک کے راستے راولپنڈی سے جنوب مغرب کی سمت تقریباً 35کلومیٹر کے فاصلے پر ایسے محل وقوع پر واقع ہے کہ میں بچپن سے اس کی فضائوںمیں جنوب اور جنوب مغرب اور شمال اور شمال مشرق کی طرف طیاروں کو محو پرواز دیکھتا آرہا ہوں۔ان میں ہر طرح کے طیارے دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔کچھ عمر بڑی ہوئی۔ تعلیم، علم، مشاہدے اور معلومات میں اضافہ ہوا تو یہ بھی اندازہ ہونے لگا کہ ان میں پاک فضائیہ کے طیارے کون سے ہو سکتے ہیں اور کن طیاروں کا تعلق اپنی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے سے ہو سکتا ہے۔ مجھے کچھ ایسے یاد پڑتا ہے اور میرے ذہن میں اس کے کچھ دھندلے سے نقوش موجود ہیں کہ میں اس وقت غالباً تیسری جماعت میں پڑھتا تھا کہ 16اکتوبر 1951کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران شہید کر دیا گیا۔ مجھے آٹھ نو سال کی عمر اور تیسری جماعت کا طالبعلم ہوتے ہوئے اس طرح کی باتوں یا وزیر اعظم کے عہدے اور حیثیت اور ان کی شہادت جیسے واقعات کی اہمیت کی کچھ زیادہ سُدھ بدھ یقینا نہیں ہو سکتی تھی نا ہی اب میں اس بارے میں کوئی دعویٰ کر سکتا ہوں، میرے رشتے کے ایک چچا ملک فضل خان مرحوم کی زبانی شہید ملت لیاقت علی خان پر قاتلانہ حملے اور ان کی شہادت کی خبرملی ۔ مجھے یاد پڑتا ہے ۔کہ اس دن شام کے وقت پاک فضائیہ کے دو بڑے طیارے ساتھ ساتھ پرواز کرتے ہوئے ہمارے گائوں کی فضا سے جنوب مغرب کی طرف گزرے۔ ان طیاروں کے اس طرح اکھٹے پرواز کرتے ہوئے گزرنے کے بارے میں اس وقت میرے ذہن میں کچھ خیال آیا تھا یا نہیں لیکن برسوں بعد جب عمر کے ساتھ اللہ کریم نے سمجھ بوجھ ، علم ، معلومات اور مشاہدے میں وسعت بخشی تو اس وقت سے میرا یہ گمان (یا شاید یقین ) چلا آرہا ہے کہ 16اکتوبر 1951کی شام کو گائوں کی فضا سے گزرنے والے پاک فضائیہ کے دو طیاروں میں سے ایک میں لیاقت علی خان شہید کا جسد خاکی پنڈی سے کراچی لے جا یا جا رہا تھا۔ بہت عرصہ بعد دسمبر 1989 کی 26 تاریخ جب میں پی آئی اے کےDC-10 طیارے کی فلائٹ سے کراچی سے پنڈی آرہا تو مجھے اس بات کی آگاہی ملی کہ واقعی میرے گائوں کی فضائوں میں سے جنوب اور جنوب مغرب کی طرف جانے والے زیادہ تر طیارے کراچی جاتے ہیں تو شمال اور شمال مشرق کی طرف جانے والے طیاروں کا رخ چکلالہ کی طرف ہوتا ہے۔ صبح دس ساڑھے دس بجے کا وقت ہوگا ۔ میں اپنی سائیڈ
والی نشست پر بیٹھے باہر نیچے کے مناظر دیکھنے کی کوشش میں تھا۔ طیارہ بلندی سے کچھ نیچے آیا اور اس کا رخ بھی ذرا سا شمال مشرق کی طرف ہوا۔ نیچے کے مناظر کچھ نمایاں ہو کر دکھائی دینے لگے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ طیارہ شاید میرے گائوں کی فضا میں سے گزررہا ہے۔ واقعی ہی ایسا ہی تھا کہ مجھے کچھ دور شمال مشرق میں دریا بہتا ہوا نظر آرہا تھا۔یقینا یہ دریائے سواں تھا بلاشبہ میں نے پہچان لیا کہ نیچے جو عمارات وغیرہ نظر آرہی ہیں ان میں سے سرخ رنگ کی اینٹوں والی عمارت ہمارے گائوں کے گرلز ہائی سکول کی ہے جس کے قریب ہی میرا گائوں والا گھر بھی ہے۔
خیر بعد کے ان واقعات کو چھوڑ کر واپس بچپن کی طرف لوٹتے ہیں بچپن کی یادوں کو کریدوں تو کئی واقعات ذہن کے نہاں خانے میں بھولی بسری یادوں کی صورت آکر دستک دینے لگتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی اس بات کا ذکر کر رکھا ہے کہ میرا تعلق ایک چھوٹے سے کسان گھرانے سے ہے۔ والد گرامی مرحوم و مغفورمحترم لالہ جی کاشت کاری کرتے تھے ۔ انھوں نے انتہائی محدود وسائل میں اپنی اولاد ہم سات بہن بھائیوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری ہی نہ نبھائی بلکہ ممکن حد تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی بھی کی۔ والدہ مرحومہ و مغفور ہ محترمہ بے جی گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی تھیں اور کم ہی کھیتی باڑی کے کاموں میں لالہ جی کا ہاتھ بٹھا سکتی تھیں۔ لالہ جی مرحوم و مغفور ڈھلتی دوپہر کو ہل چلانے یا فصل کو پانی دینے اور مویشیوں کو چارہ وغیرہ ڈالنے کے بعد گرمیوں کے موسم میں کنویں کے تازہ صاف اور ٹھنڈے پانی میں نہا کر فارغ ہوتے تو پھر گھر آکر کھانا کھایا کرتے تھے۔ میرے بڑے بھائی حاجی ملک غلام رزاق جو عمر میں مجھ سے تقریبا ً چھ سال بڑے ہونگے ذرا بڑے ہوئے اور تیسری چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے تو کھیتی باڑی کے کاموں میں لالہ جی مرحوم و مغفور کا ہاتھ بٹانے لگے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ فوج میں بھرتی ہوگئے تب بھی ان کا زیادہ تر یہ معمول رہا کہ وہ گندم کی کٹائی اور گاہنے کے موسم میں چھٹی لے کر گائوں آجایا کرتے ۔ میں شروع سے ہی جسمانی طور پر کمزور تھا اس لیے کھیتی باڑی کے مشکل کام کم ہی کرتا ۔ البتہ کنویں (رہٹ) پر کوئی مویشی بیل ، گائے یا گدھی وغیر ہ جوت کر فصل کو پانی وغیرہ لگانے کا کام کر لیا کرتا تھا یا پھر اپنے مختصر سے مویشیوں کو اپنے بیلے میں چرانے کے لیے لے جایا کرتا تھا۔
اس ضمن میں مجھ ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ اپنے کنویں کے احاطہ میں ہم نے ایک نیم پختہ کمرہ اور اس کے ساتھ ایک بڑا سا برآمدہ (پسار) بنا رکھا تھا۔ چھت پر ایک ٹین کا بڑا سا پرنالہ لگا ہو ا تھا ۔اس پرنالے کے نچلی طرف بھڑوں نے اپنا چھتہ بنا یا ہوا تھا۔ ساون بھادوں کے دن تھے ۔ کھیتوں کی منڈیروں پر خوب سر سبز گھاس تھی۔ میں ہاتھ میں ڈنڈا لیے اپنی بھینس کی پیٹھ پر بیٹھا اسے سبز گھاس چرا رہا تھا۔ بھینس گھاس چرتے چرتے پرنالے کے قریب آئی تو میں نے بغیر سوچے سمجھے اپنے ہاتھ میں اٹھایا ڈنڈا پرنالے کو دے مارا۔ چھتے پر بیٹھی بھڑیں ایک غول کی طرح اڑیں اور بیک وقت آٹھ دس بھڑوں نے مجھے چہرے ، گردن اور بازووں پر کاٹ لیا۔ میں تکلیف سے چیخنے چلانے لگا۔ اگلے دو تین دن میرا چہرہ ، گردن اور بازو بری طرح سوجھے رہے۔ انہی برسوں میں ایک رات کو مجھے ایک بچھو نے کاٹ لیا۔ ان دنوں گرمیوں میں ہم (بڑے بھائی اور میں ) رات کو کنویں پر سویا کرتے تھے تاکہ خربوزوں کے کھیت کی گیڈروں اور دوسرے جنگلی جانوروں سے حفاظت ہو سکے۔ رات کو مغرب کے وقت گائوں میں گھر سے کھانا کھا کر کنویں پر چلے جایا کرتے تھے۔ ایک دن میں بھائی صاحب کے ساتھ کنویں پر گیا اور مویشیوں کو چارہ ڈالنے میں حسب معمول بھائی صاحب کا ہاتھ بٹانے کے لیے مویشیوں کی کھرلی کی طرف بڑھا ۔ ابھی کھرلی کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ مجھے ایسا لگا جیسے میرے پائوں کی ایڑی کو نیچے سے کسی چیز نے کاٹ لیا ہے۔ ایک لمحے کے اندر ناقابل برداشت درد کی لہر اٹھی اور میری چیخیں دور تک سنائی دینے لگیں ۔ بھائی صاحب نے سمجھ لیا کہ مجھے کسی بچھو نے کاٹ لیا ہے انھوں نے اس جگہ پرجو سوکھی گھاس وغیرہ بکھری ہوئی تھی اسے آگ لگا دی اور مجھے اپنی پیٹھ پربٹھا کر گائوں لے آئے۔ گھر پہنچے توبے جی مرحومہ سے میری تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی وہ مجھے اٹھائے اپنے ماموں ملک گودڑ خان جو گائوں کے بڑے نمبردار تھے کے گھر لے گئیں۔ وہ بچھو کے کاٹے پر دم وغیرہ کیا کرتے تھے۔ وہ کتنی دیر تک مجھے دم کرتے رہے ہاتھ میں انھوں نے بکائین (دھریک) کے نرم پتوں والی چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں اٹھا رکھی تھی۔ وہ بچھو کے کاٹنے کی جگہ پر آہستہ آہستہ نرم پتوں والی ٹہنیاں پھیرتے اور منہ سے کچھ پڑھتے رہے ۔ بے جی کے اصرار پر انہوں نے دم درود کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رکھا۔ اس دوران شاید مجھے نیند آگئی صبح میں جاگا تو پائوں کی ایڑی میں درد تو تھا لیکن اس کی شدت میں کمی آچکی تھی ۔ کنویں پر جس جگہ بھائی صاحب نے آگ لگائی تھی وہاں ایک بڑا سا بچھو آگ میں جھلس کر مرا پڑا تھا۔ بچپن کی یادوں کا یہ سلسلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو فراموش کیا جا سکے۔ اور بھی کتنی ہی ایسی بھولی بسری یادیں ہیں جن کا تذکرہ ہو سکتا ہے۔