’’عمرِرواں‘‘ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی خودنوشت ہے‘ایک ایسے تحریکی کارکن کے حالات زندگی جس نے دورِ طالب علمی سے اب تک کم و بیش چودہ مرتبہ جیل کاٹی اور ہر دفعہ سرخرو ٹھہرا۔لاہور کیمپ جیل‘ کوٹ لکھپت جیل‘ راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل‘ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا‘شاہ پور جیل‘سکھر جیل‘سملی ڈیم سب جیل سمیت ملک کے کئی نامور زندانوں میں زندگی کے اہم ترین سال گزارے مگر سلام اس مردِ مجاہد کو‘ اس کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔میں گزشتہ کچھ دن ڈاکٹر فرید پراچہ کی یاداشتوں کا مجموعہ پڑھنے میں مصروف رہا‘کئی ابواب تو دو سے تین مرتبہ بھی پڑھے اور اس تاریخی دستاویز سے لطف اندو زہوا۔ادب کا طالب علم ہوں‘کئی نامور اہلِ قلم کی آپ بیتیاں اور یاداشتیں پڑھ رکھی ہیں مگر ایمان داری سے کہوں تو ’’عمرِ رواں‘‘پڑھتے ہوئے عجیب سرشاری سے محسوس ہوتی رہی۔ہر واقعہ اور یاداشت ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اسی کتاب سے چند واقعات درج کر رہا ہوں۔ڈاکٹرفرید پراچہ جنرل رانی سے ملاقات کا حال یوں لکھتے بیان کرتے ہیں۔
’’ہم نے کوٹ لکھپت کی جیل میں جنرل رانی سے ملاقات کی‘جنرل رانی جیل میں بھی بن ٹھن کر رہتی‘کلف لگے کڑھائی والے کرتے ‘میک کپ اور خوشبوئوں کے ہلے۔۔۔۔۔ہم نے جنرل رانی سے پوچھا کہ آپ کے یحییٰ خان سے تعلقات کیوں کر بنے؟اس نے بتایا کہ چھمب جوڑیاں سیکٹر میں جنگ کے دوران جب یحییٰ خان زخمی ہوئے تو یہ آرام کے لیے کم و بیش ایک ماہ ہمارے گھر رہے ‘یہ اس وقت میجر تھے۔یحییٰ خان کی میرے ماموں (جو یحییٰ کے دوست تھے)سے بے تکلفی تھی۔گجرات میں ہمارے گھر میں یحییٰ خان کے قیام کے دوران میری یحییٰ خان سے دوستی ہو گئی۔اس سے بڑھ کر کچھ نہ تھا‘یحییٰ خان نے اس دوستی کا ہمیشہ احترام کیا لیکن خلقت شہر کو کئی فسانے مل گئے‘‘۔ اس کتاب سے یہ بات بھی کسی حد تک واضح ہوئی کہ میڈم نو رجہاں سے یحییٰ خان کی دوستی تھی مگر کسی حد تک یحییٰ خان میڈم کو پسند بھی کرتا تھا۔سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے فرید پراچہ لکھتے ہیں کہ:’’جنرل رانی پورے دلائل اور واقعات و شواہد کی بنا پر بھٹو کو سانحہ مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا
کردار سمجھتی تھی۔اس کے مطابق یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن میں معاہدہ طے پا گیا تھا کہ یحییٰ آئندہ صدر ہو گا اور مجیب الرحمن وزیر اعظم۔بھٹو نے یحییٰ خان کے لیے لاڑکانہ اپنے ہاں زبردست دعوت کا اہتمام کیا‘جنرل رانی بھی اس سفر میں ہمراہ تھی۔یہاں بھٹو نے رقص اور نائو نوش کا نہایت اعلیٰ اہتمام کر رکھا تھا۔کئی خوبصورت چہرے بلائے گئے اور گانے کا بھی بہترین انتظام تھا‘وہ رنگین رات ہی مشرقی پاکستان کا فیصلہ کر رہی تھی۔بھٹو نے یحییٰ کے ذہن میں بٹھا دیا کہ مجیب الرحمن اسے قتل کرا دے گا اس لیے فاصلہ رکھیں۔اسی صورت یحییٰ بلا شرکت غیرے اصل اقتدار اور اختیارات کا مالک رہ سکتا ہے۔جنرل رانی نے یہ بھی بتایا کہ میرے پاس بھٹو اور یحییٰ کی ملاقاتوں کی ایسی ریکارڈنگ ہے کہ جو تاریخ کے کٹہرے میں ثابت کر سکتی ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار مجیب ہے اور نہ یحییٰ‘بلکہ صرف بھٹو ہے‘‘۔
بقول مصنف انھوں نے جنرل رانی کو قائل کر لیا تھا کہ وہ کیسٹ ان کے حوالے کر دے اور وہ جامعہ پنجاب میں ایک بڑی کانفرنس بلائیں گے جس میں جنرل رانی کومدعو کریں گے اور وہ اس میں بے دھڑک سب انکشاف کر دے۔ جنرل رانی نے ان طالب علموں سے وعدہ بھی کر لیا کہ اسے جیل سے باہر نکلوایا جائے تو کیسٹ ان کے حوالے کر دے گی۔ جنرل رانی نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ بھٹو نے اس کیسٹ اور تصاویر کی وجہ سے ہی مجھے جیل میں ڈال رکھا ہے۔یہ طالب علم جیل سے رہا ہو گئے‘کچھ عرصہ بعد جنرل رانی بھی رہا ہو گئی مگر اس سے قبل رانی کے بھٹو سے معاملات طے پا گئے جس کی وجہ سے وہ تصاویر اور کیسٹ آج تک سامنے نہ آ سکی۔
’’عمرِ رواں‘‘ کے مطالعے سے جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے بارے بھی اہم معلومات سامنے آتی ہے کہ جماعت اسلامی کی اکثریت ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے خلاف تھی‘کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ ضیاء الحق نے یکم دسمبر۱۹۸۴ء کو صرف انیس دن کے نوٹس پر ریفرنڈم کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے فرید پراچہ صاحب رقم طراز ہیں:’’ضیاء الحق کا ریفرنڈم بھی خوب تھا یعنی کیا آپ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں‘عدل و انصاف اور خوش حالی چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اگر ہاں میں دیتے ہیں تو اگلے پانچ سال کے ضیاء الحق صدر ہوگا ۔اب کون بدنصیب اس سوال کا جواب انکار میں دیتا۔اگر ہاں میں دے تو ضیاء الحق صدر اور اگر نہ میں دے تو اللہ میاں ناراض۔جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کی اس موضوع پر واضح تفریق تھی‘اراکین کراچی سمیت مجلس شوریٰ کے کافی ارکان ریفرنڈم کی حمایت کے خلاف تھے، چوں کہ میاں طفیل محمد صاحب اس ریفرنڈم کے حامی تھے لہٰذا ان کے دلائل کے احترام میں مجلس شوریٰ نے کثرت رائے سے ریفرنڈم کے حق میں فیصلہ دے دیاتاہم ارکان کو اختیار دیا گیا کہ وہ اس حوالے سے اپنی مرضی کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر عائشہ جلال اپنی کتاب’ ’دی سٹرگل فار پاکستان ‘‘ میں لکھتی ہیں’’خیبر سے کراچی تک عوام نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا جس نے جمہوریت کے لیے قومی سطح پر ایک اتفاق رائے کو ظاہر کیا‘ووٹنگ کی شرح دس فیصد سے زائد نہ تھی۔یہاں تک کہ ایسے افراد کو بھی ووٹ ڈالنے کے لیے بلایا گیا جو رجسٹرڈ ہی نہ تھے‘الیکشن کمیشن نے بھی زمینی حقائق کے بجائے یہ اعلان کیا کہ ووٹنگ شرح باسٹھ فیصد رہی اور ستانوے فیصد لوگوں نے ’’ہاں‘‘ کہہ کر اسلامی نظام کی حمایت کی حالانکہ معاملہ اس سے برعکس تھا‘‘۔اس میں کیا دو رائے ہیں کہ عوامی بائیکاٹ نے یہ بات تو واضح کر دی کہ وہ نہ ضیاء کو صدر چاہتے ہیں اور نہ اسلامی نظام کی بحالی بلکہ سیاسی جمہوریت ہی بہترین راستہ ہے۔پاکستان میں تینوں ریفرنڈم(ایوب خان‘ضیاء الحق ‘جنرل مشرف) سے کم ازکم جمہوریت کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ضیاء الحق جو نوے دن کا وعدہ کر کے آئے تھے‘گیارہ سال اس ملک پر مسلط رہے اور ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی بتی کے پیچھے لگا کر ملک کو ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا جس سے آج تک کوئی واضح راستہ نظر نہیں آ سکا۔جنرل ضیاء نے اپنا سیاسی روزگار چمکانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا اور اس قوم کو جذباتی کر کے حمایتیں حاصل کیں‘جس کے نقصانات سب کے سامنے ہیں۔بقول اکبر الٰہ آبادی:
یہ پوچھا مجھ سے دورِ چرخ نے کیا تو مسلماں ہے؟
میں گھبرایا کہ اس دریافت میں کیا راز پنہاں ہے
اگر اقرار کرتا ہوں تو بے مہری کرے گا یہ
اگر انکار کرتا ہوں تو خوف قہر یزداں ہے
بالآخر کہہ دیا میں نے مسلمان تو ہے بندہ
ولیکن مولوی ہرگز نہیں ہے خانساماں ہے