کسی بھی ریاست کا ایک مرکزی بنک ہوتا ہے، جس کا مکمل کنٹرول حکومت کے پاس ہوتا ہے، حکومت کے تمام اکاؤنٹس براہ راست یا کسی واسطے سے اسی بنک میں رکھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب حکومت کو قرض لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ اسی بنک سے رجوع کرتی ہے۔ اور اسے بآسانی آسان شرائط اور کم شرح سود پر قرضہ مل جاتا ہے۔ پاکستان کا بھی مرکزی بنک سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔یہ بنک 1948ء میں قائم ہوا اور براہ راست حکومت کے زیر اثر رہا۔اور اس کی خود مختاری کے حوالے سے کئی ایک فیصلے کیے گئے، کسی دور حکومت میں سٹیٹ بنک مرکزی حکومت کے پاس چلا گیا اور کسی دور حکومت میں یہ خود مختار ہوگیا، مثلاً 1997ء میں اس وقت کی نگران حکومت نے اسے مکمل خودمختار بنا دیا لیکن بعد میں 2005ء میں یہ دوبارہ حکومت کے ماتحت چلا گیا۔ اس کے بعد کی آنے والی حکومتوں نے اس بنک کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا مگر اس کی تفصیل بہت مفصل ہے اس لیے اس پر پھر کبھی روشنی ڈالیں گے۔ لیکن یہ بنک آہستہ آہستہ آئی ایم ایف کے زیر اثر چلا گیا اور جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو اْسے علم ہوا کہ مرکزی بنک سمیت پاکستان بھر کے بڑے بڑے کماؤ ادارے پچھلی حکومتوں نے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوا دیے ہیں۔ جبکہ پاکستان بری طرح آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ایشین بنک ، چینی بنک اور امریکی گرداب میں مکمل پھنس چکا تھا۔ لہٰذاموجودہ حکومت نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اس گرداب سے نکلے، اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے دوست ممالک کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر معیشت کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ بلکہ پاکستان پچھلے قرضوں کی مد
میں سود کی ادائیگی کر کر کے مزید قرضے لیتا رہا۔ بلکہ حد تو یہ ہو گئی کہ FATFجیسی تلوار بھی موجودہ حکومت کو تحفے میں دی گئی۔ جس نے 29قسم کی شرائط عائد کر کے پاکستان کو مزید مشکلات سے دو چار کر دیا۔ اور ساتھ آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینے کے لیے موجودہ حکومت کو کئی قسم کی شرائط بھی ماننا پڑیں جس میں سر فہرست سٹیٹ بنک کو حکومت سے آزاد کرا کر خود مختاری دلانا تھا۔
اس کے لیے موجودہ حکومت کو سینیٹ میں اکثریت کی ضرورت تھی لہٰذاگزشتہ ہفتے حکومت نے سینیٹ سے سٹیٹ بینک ترمیمی بل کامیابی سے منظور کرا لیا ،اکثریت کے باوجود اپوزیشن ناکام رہی۔حکومت نے سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2022ء صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کرا یا۔اس بل کے منظور ہونے کے بعد پورے ملک میں جیسے طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا کہ حکومت نے نہ جانے کیا کر دیا ہے۔ حالانکہ اپوزیشن جانتی ہے کہ یہ سب کیا دھرا اْسی کا ہی ہے مگر وہ عوام کے سامنے ’’فیس سیونگ‘‘ چاہتی ہے۔ اسی لیے اگرچہ سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہو یا پھر خاص قانون سازی، اپوزیشن جماعتوں کے ممبران اس اہم موقع پر غائب پائے جاتے ہیں۔ بعد میں یہی رہنما کہتے ہیں کہ چیئرمین یا سپیکر نے سینٹ یا اسمبلی کی کارروائی کو بلڈوز کیا ہے حالانکہ اپوزیشن جماعتیں خاص مواقع پر اپنے ارکان کو اکٹھا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف گو حکومت کو اقلیت ہونے کے باوجود سینٹ میں فتح ملی ہے لیکن اسے اپوزیشن رہنماؤں سے ہٹ کر معاشی ماہرین کے تحفظات کو بھی سننا چاہیے، اگر معاشی ماہرین جو غیر جانبدار ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس قانون سازی سے سٹیٹ بنک کی خود مختاری پر حرف آئے گا یا پھر وہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن لینا پڑے گی تو ان باتوں کو سنجیدہ لے کر اس بل کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ملکی سلامتی کے اداروں کے وقار پر کسی قسم کا کوئی حرف نہ آئے۔
اپوزیشن کو چاہیے کہ بغیر کسی مقصد کے شور شرابہ کرنے کے بجائے ملکی مفاد کے لئے قانون سازی میں حکومت کی مدد کرے۔ اپوزیشن کو یکسو ہونا چاہئے اور مخالفت برائے مخالفت کے بجائے ایسی ٹھوس تجاویز پیش کرنی چاہئیں جن سے قانون سازی کا معیار بہتر ہو۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مل کر ایسے قوانین میں تبدیلی لائیں تاکہ عوام نے جس مقصد کے لئے انہیں اسمبلی بھیجا ہے وہ مقصد پورا ہو۔ہمیں اس کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، اور حکومت کے لیے بھی اسے اپنی ترجیحات میں رکھنا چاہیے کیوں کہ صنعتی ترقی کیلئے حکومت کا کردار نہایت اہم ہے لیکن اس کی حدود کا تعین ہونا چاہئے اور مافیا اور اجارہ داروں سے نپٹنے کیلئے ضوابط بنانے چاہئیں۔ اپنی صنعتوں میں ہونے والی گڑبڑی کی نشاندہی کیلئے ایک مؤثر تقابلی کمیشن اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی ضرورت ہے۔ چینی، آٹو موبائلز، سیمنٹ، فارماسوٹیکل اور بے شمار ایسی بڑی صنعتیں ہیں جنہوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور قیمتوں میں ردوبدل کرتے رہتے اور حکومت چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ مضبوط مافیا ہے، ایک دو سال میں نہیں جائے گا، اس کے لیے طویل حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری جڑوں میں سرایت کر چکا ہے، ہم میں رچ بس چکا ہے، ہمارے اندر سما چکا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اسے نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر اگر ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے تو معیشت سمیت ہم اپنے تمام اداروں کو واپس لے لیں گے۔ لیکن اْس سے پہلے ضروری ہے کہ تنقید برائے تنقید کی جگہ ہر کسی کو اصلاح کرنے میں حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ ملک آگے بڑھ سکے!