اگست 2018 میں جب عمران خان وزیر اعظم پاکستان بنے تو ان سے لوگوں کو بڑی امید تھی کہ وہ واقعی کوئی تبدیلی لے کر آئیں گے۔ مجھے آج بھی خان صاحب کی پہلی تقریر یاد ہے جس میں انھوں نے قوم سے بہت بڑے بڑے وعدے کئے تھے۔ عمران خان نے قوم کی مایوسیوں اور محرومیوں کا جس بے دردی سے استعمال کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پہلی ہی تقریر میں 50 لاکھ گھر ، ایک کروڑ نوکریاں، مفت صحت ، کم خوراک کی وجہ سے بچوں کی عدم نشوونما سمیت گڈ گورننس کے بہت سے وعدے کر ڈالے۔ان وعدوں کو پورا کرنے کے لئے 6 ماہ کا ایک اور وعدہ بھی کیا۔ کیا سابق وزیر اعظم عمران خان کو اندازہ نہیں تھا کہ انھیں لکھی ہوئی تقریر کا جو پرچہ تھمایا گیا وہ 6 ماہ میں قابل عمل نہیں ہے۔ 75 برس کا کام چند مہینوں میں ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ عمران خان کو اپنی ٹیم کی اہلیت اور قابلیت تک کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ سب کام کرسکیں گے ؟ لیکن انھیں ایک جنون تھا کہ وہ کسی طرح سے وزیر اعظم بن جائیں۔ جیسے ہی وہ وزیراعظم بنیں گے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ شاید وزیر اعظم ہاؤس میں کوئی ایسا بٹن ہے جس کے دبانے سے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے؟ ان سے پہلے جو لوگ تھے وہ اس بٹن کو صحیح طرح نہیں دبا سکے ہوں گے۔ خان صاحب کو بہت سے مغالطے تھے کہ شاید وہ کوئی کرشماتی شخصیت ہیں۔ ان کے وزیر اعظم بنتے ہی ہر ادارہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ پورا ملک بس ان کے ایک اشارے کا منتظر ہوگا۔ خان صاحب کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اقتدار کانٹوں کی سیج ہے۔ اسی تخت کو حاصل کرنے کے لئے انھوں نے اپنی پوری جدوجہد داؤ پر لگا دی۔ اب یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ خان صاحب کیسے اقتدار میں آئے؟ کس طرح سے میاں نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا ؟ کس طرح مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کو الیکشن میں مہم تک نہیں چلانے دی گئی۔ اس کے باوجود عمران خان سادہ اکثریت بھی نہ لے سکے۔ بیساکھوں پر ایک حکومت بنائی گئی۔ یہی خان صاحب تھے جو کنٹینر پر کھڑے ہوکر کہتے تھے کہ مر جاؤں گا لیکن چوروں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ پھر جس جس کو چوراور ڈاکو کہتے تھے ان کو اپنے ساتھ اقتدار میں شامل کیا۔ عمران خان کا پہلا یو ٹرن کابینہ کی تشکیل تھا جب انھوں نے ان لوگوں کو ساتھ ملایا جو انھیں کسی صورت قابل قبول نہیں تھے۔ یہ ان ووٹرز اور معصوم عوام کے ساتھ پہلا دھوکا تھا۔ جنھوں نے تبدیلی اور انصاف کے نام پر عمران خان کو ووٹ دیئے۔ خان صاحب نے ان سب خوابوں کا سودا کیا اور قوم کو کرپٹ وزیروں کے حوالے کر دیا۔ عمران خان کے اردگرد وزراء کی جو فوج تھی اس نے کرپشن اور نااہلی کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ تمام بڑے سکینڈل عمران خان کے اس پونے چار برس کے دور اقتدار میں آئے۔ چینی ، گندم ، ادویات، ایل این جی سمیت درجنوں کرپشن کے سکینڈل ہیں جو اس مختصر دور میں آئے۔ عمران خان نے تو برادر ملکوں سے ملنے والے تحفے تک مارکیٹ میں بیچ دیئے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اونے پونے داموں پر خریدے گئے تحفے کروڑوں میں بیچ کر جو مال بنایا گیا کیا وہ آپ کی ایمانداری پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟ جس شخص نے توشہ خانے کے تحائف نہیں چھوڑے وہ کیسے ریاست مدینہ کے قیام کا دعوے دار ہو سکتا ہے ؟ کیا چند ایک لنگر خانے بنانے سے ریاست مدینہ قائم ہوجاتی ہے؟ جناب ریاست مدینہ انصاف کا عنوان ہے۔ کیا عمران خان کی حکومت میں کرپشن سکینڈل میں ملوث وزراء
کو کوئی سزا ملی؟ بالکل نہیں۔ سزا تو درکنار ان سب کو باقاعدہ کلین چٹ دلائی گئی۔ خان صاحب جس شخص کے متعلق آپ نے کہا کہ آپ اسے اپنا چپڑاسی بھی نہ بنائیں۔ اسے آپ نے وزیر داخلہ لگا دیا۔ آپ اپنے پورے دور اقتدار میں خود کو مافیاز کے سامنے بے بس ظاہر کرتے رہے۔ کبھی بیورو کریسی کو مافیا کہا، کبھی کاروباری طبقے کو یہ اعزاز بخشا تو کبھی اداروں کو۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ آپ نے ان تمام مافیاز کو بھرپور فائدے دیئے۔ ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو سپریم کورٹ سے 460ارب کا جرمانہ ہوا۔ لیکن آپ کی حکومت میں، آپ کے ایک وزیر باتدبیر نے برطانیہ سے اس پراپرٹی کنگ کی منی لانڈرنگ کی
مد میں قومی خزانے کو حاصل ہونے والی خطیر رقم کو اس کے جرمانے میں ایڈجسٹ کر دیا۔ کیا یہ قوم کا پیسہ نہیں تھا؟ کیا آپ کو یہ اختیار تھا کہ آپ قوم کے پیسے سے کسی کو فیضیاب کر دیں ؟ صرف اس لئے کہ آپ بوقت ضرورت ان کے جہازاور ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے ہیں۔ عمران خان ایمانداری کا ڈھونگ رچا کر سرمایہ داروں کے پیٹ بھرنے میں مصروف رہے۔ ان پونے چار برس میں ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس خان صاحب نے گروی رکھا جس کے متعلق وہ کہتے تھے کہ اس سے بہتر وہ مر جانا پسند کریں گے۔ یہ کتنا بڑا یو ٹرن تھا۔ خان صاحب آپ نے قوم سے ہر قدم پر مذاق کیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جو کسی طرح بھی اس عہدے کا اہل نہ تھا۔ عثمان بزدار خود کہہ چکے ہیں کہ وہ کام سیکھ رہے تھے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ساتھ اتنا بڑا مذاق؟ گیارہ کروڑ عوام کے صوبے کو کس طرح ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جو اپنا کام ہی نہیں جانتا تھا۔ عمران خان صاحب آپ کے بطور وزیر اعظم پونے چار برس کو بیڈ گورننس، نااہلی، کرپشن اور تمام وعدوں سے یو ٹرن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اپ نے قوم کے ساتھ تبدیلی ، انصاف اور حقوق کے نام پر بہت بڑا مذاق کیا ہے۔ اقتدار کی خاطر پنجاب میں اس شخص کو وزیر اعلیٰ لگا دیا ہے جسے آپ سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ خان صاحب آپ یہ سب کیسے کر لیتے ہیں ؟ میں حیران ہوتا ہوں کہ عمران خان ہر بار قوم کو کتنی آسانی سے ورغلا لیتے ہیں۔آپ کو آئینی طریقے سے اپوزیشن جماعتوں نے اقتدار سے باہر نکالا۔ آپ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جوعدم اعتماد کے ذریعے نکالے گئے ہیں۔ تاریخ اب آپ کو اسی طرح یاد رکھے گی۔ سازش اور مداخلت کا بیانیہ گھڑ کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیں۔ آپ نے عوام کی مایوسیوں اور محرومیوں کو ایک بار پھر ہتھیار بنا لیا ہے۔ یقین جانیں اگر آپ 6 مہینے اور وزیر اعظم رہتے تو میرے منہ میں خاک یہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ اپوزیشن اپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگا کر اس ملک کی معیشت بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن آپ کو کسی طرح بھی گوارا نہیں کہ پاکستان میں آپ کی وجہ سے پیدا کردہ عدم استحکام، کہیں استحکام میں نہ بدل جائے۔ آپ دن رات ایک کر کے ملک کے سیاسی امن کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔لیکن عوام اب آپ کو جان چکے ہیں۔ اب یہ قوم آپ کو دوبارہ کسی عثمان بزدار کا تجربہ نہیں کرنے دے گی۔ یہ آپ کو پھر سے بڑے مالیاتی سکینڈلز میں معافی نہیں دینے دے گی۔ آپ نے اداروں کو تباہ کرنے کو جو کوششیں کی ہیں پھر سے نہیں کرنے دی جائیں گی۔ الیکشن اپنے وقت پر ہونے چاہئیں ۔ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے۔ ملک کواس وقت ایک ایسے معاشی میثاق کی ضرورت ہے جو ان بحرانوں سے نمٹنے میں ہماری مدد کر سکے۔ یاد رکھیں اب یہ قوم آپ کو پھر سے کوئی مذاق کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔