پاکستان کی جمہوری سیاست کے سورج کو گرہن لگنے سے بچانے کے لیے مزاحمتی سرگرمیوں کی لسٹ لمبی ہے۔ جمہوری سیاست کے حقوق کی سربلندی کے لیے مزاحمتی جدوجہد کا آغاز لیاقت علی خان کے دور سے ہی ہوگیا تھا جب تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے مشرقی پاکستان کے کچھ اہم رہنمائوں کو پہلی کابینہ میں نظرانداز کردیا گیا۔ گزشتہ 74 برس میں سیاسی مزاحمتیں کسی نہ کسی صورت میں مارشل لائی ڈکٹیٹروں، سِول ڈکٹیٹروں اور سِول حکومت کی موجودگی میں پس پردہ طاقتوں کے خلاف جاری رہی ہیں۔ اِن سیاسی مزاحمت کاروں میں اہم اور بڑے نام شامل ہیں جنہوں نے سڑکوں پر پولیس کے ڈنڈے کھائے، آنسو گیس پر آنسو بہائے، جیل کی دیمک زدہ کوٹھڑیوں میں دن رات گزارے، سرکاری تشدد کے دوران معذور ہوئے اور سیاسی نااہلیت کا پروانہ بھی وصول کیا۔ ان میں ایک نام ذوالفقار علی بھٹو کا ہے جن کی جیل کال کوٹھڑی سے ہوتی ہوئی پھانسی گھاٹ پر ختم ہوئی۔ دوسرا نام نواز شریف کا آتا ہے جن کے دوسرے اقتدار کے بعد انہیں 14ماہ تک قلعے کی کالی سرنگوں میں رکھا گیا اور عدالتی پیشیوں کا ہوائی سفر زنجیروں میں جکڑ کر کرایا گیا جبکہ ان کے تیسرے اقتدار کے بعد انہیں پھر جیلوں میں ڈال دیا گیا اور آخرکار انہیں میڈیکل بنیادوں پر جلاوطن ہونا پڑا۔ ان دو جمہوری وزرائے اعظم کے علاوہ کچھ دوسرے نام مثلاً حسین شہید سہروردی، مولوی تمیز الدین، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مفتی محمود، مصطفی کھر اور ولی خان وغیرہ وغیرہ بھی ہیں جنہوں نے طاقتور فیصلوں یا طاقتور حکمرانوں کو کسی نہ کسی حوالے سے چیلنج کیا۔ دوسری طرف غور کیا جائے تو پاکستان کی سیاسی مزاحمت کاری میں خواتین کے نام کم ہیں لیکن بہت زیادہ شان و شوکت والے ہیں۔ خواتین سیاسی مزاحمت کاروں میں چند نام مثلاً محترمہ فاطمہ جناح، نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر، بیگم نسیم ولی خان، کلثوم نواز ، شیری رحمان، فہمیدہ مرزا، نجمہ حمید، طاہرہ اورنگزیب، مریم اورنگزیب، سمیعہ راحیل قاضی، تہمینہ دولتانہ
اور شہلا رضا وغیرہ کے ہیں۔ آج کل سیاسی مزاحمتی خواتین کی فہرست میں سب سے نمایاں نام مریم نواز کا ہے۔ یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ پہلی مرتبہ زیادہ تعداد میں خواتین سیاسی مزاحمت کار جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران سامنے آئیں۔ اُس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی خواتین سیاسی مزاحمت کاروں کو بڑی تعداد میں دیکھا جاسکتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے موجودہ دور میں مریم نواز مزاحمتی سیاست کا ایک رول ماڈل بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین سیاسی مزاحمت کار تقریباً ہر پارٹی کے اندر موجود ہیں۔ وہ بعض اوقات جمہوری سیاست کو چیلنج کرنے والوں کو بہادری سے چیلنج کرتی نظر آتی ہیں اور بعض اوقات اپنی ہی پارٹی کے اندر غیرجمہوری شخصیات کو بھی للکارنے سے باز نہیں آتیں۔ خواتین سیاسی مزاحمت کاروں میں دو باتیں مشترک ہیں۔ وہ یہ کہ ان میں سے تقریباً کسی کی بھی پیدائش براہِ راست یا بلاواسطہ طاقتور اداروں کی گود میں نہیں ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ ان خواتین سیاسی مزاحمت کاروں نے اپنی مزاحمت کاری میں کبھی کوئی لچک نہیں دکھائی۔ اس بنیاد پر انہیں مردوں سے زیادہ سخت گیر مزاحمت کار کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مزاحمت کاری کی خاتونِ اول محترمہ فاطمہ جناح ہیں جنہوں نے طاقتور ترین سربراہ جنرل ایوب خان کو براہِ راست چیلنج کیا اور اپنے موقف میں کسی قسم کی لچک نہیں دکھائی۔ دوسری بڑی سیاسی مزاحمت کار خاتون بینظیر بھٹو ہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں ہی طاقتور ترین ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کو للکارا۔ بینظیر بھٹو کے پاس یہ تمغہ بھی موجود ہے کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے بعد دوسرے مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو بھی آہنی ہاتھوں سے لیا۔ اس کے علاوہ اپنی سیاسی زندگی کے دوران انہوں نے سِول ڈکٹیٹروں اور سِول حکومتوں کی موجودگی میں پس پردہ طاقتوں کو بھی آنکھیں دکھائیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی دونوں حکومتوں کے دوران روایتی خفیہ ہاتھوں کے ساتھ بھی خوب پنجہ آزمائی کی۔ ملک کی دونوں بڑی قومی سیاسی جماعتوں میں سے پیپلز پارٹی کی مستقبل کی قیادت بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے جبکہ تجزیہ کیا جائے تو اُن کی بہن آصفہ بھٹو کا مزاج سیاسی مزاحمت کاری کے حوالے سے اپنی والدہ کی طرح زیادہ مزاحمتی محسوس ہوتا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی قیادت کاہار مریم نواز کے گلے میں ڈل چکا ہے۔ دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن میں پہلی خاتون سیاسی مزاحمت کار کلثوم نواز تھیں۔ ان کے مزاج میں بھی دوسری جماعتوں کی سیاسی مزاحمت کار خواتین کی طرح مضبوطی تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی قید میں موجود اپنے شوہر نواز شریف کو رہائی دلوانے کے لیے سخت گیر مزاحمت کی۔ مریم نواز بھی اپنی والدہ اور دوسری جماعتوں کی سیاسی خواتین مزاحمت کاروں کی طرح اس معاملے میں غیرلچکدار ہیں جس کا اظہار انہوں نے اپنے والد نواز شریف کی نااہلی، اپنی اور نواز شریف کی جیل یاترا کے بعد سے اب تک جاری رکھا ہوا ہے۔ اُن کی مزاحمت کاری کے خالص مزاج سے خوف محسوس کرتے ہوئے انہی کی پارٹی کے کئی رہنما خوفزدہ بھی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں نمبر وَن پوزیشن پر آکر قومی انتخابات کے ذریعے ملکی سربراہی کا انتخاب لڑنے والی دونوں خواتین محترمہ فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹو کسی ادارے کی پیدوار نہیں تھیں، دونوں طاقتور حلقوں کو چیلنج کرنے والی تھیں، دونوں کے مزاحمتی مزاج میں کوئی لچک نہیں تھی اور افسوس ناک مشترک بات یہ کہ دونوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے نامعلوم طاقتوں نے ایک جیسے حربے ہی استعمال کیے۔ یعنی دونوں غیرطبعی موت کا شکار ہوئیں۔ اب تک کے تبصروں کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹو کے بعد مریم نواز مسلم لیگ ن کی طرف سے قومی انتخابات کے ذریعے ملکی سربراہی کا انتخاب لڑنے والی تیسری سیاسی خاتون ہوسکتی ہیں۔ وہ بھی کسی ادارے کی پیداوار نہیں، وہ بھی طاقتور حلقوں کو چیلنج کرتی محسوس ہوتی ہیں اور اُن کا مزاج بھی سیاسی مزاحمت کاری میں ملاوٹ برداشت کرنے والا نہیں ہے۔ اوپر دی گئی ہسٹری شیٹ کو پڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مزاحمتی سیاست میں خواتین مَردوں سے زیادہ سخت گیر ہیں۔