نوجوان مونس الٰہی اپنے والد چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور میں سیاسی رموز سے آشنا ہوئے اور سرد و گرم ہوائوں میں ان کا دست و بازو بن کر تعمیر و ترقی اور خدمت کی راہوں میں نکل پڑے،آج وہ اس خاندان کا مستقبل ہیں اور عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں،کہا جاتا ہے ، جب تک عمران خان ان سے ملے نہیں تھے ان کے خیالات مختلف تھے ،بعد میں انہیں انکی سیاسی اور انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر وفاقی وزیر بنایا اور اقتدار ختم ہونے کے بعد مینار پاکستان لاہور کے جلسے میں ان کا نام لے کر خراج تحسین پیش کیا کہ جب مجھے سب چھوڑ گئے آپ ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔آج چودھری پرویز الٰہی ایک بار پھر وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں تو اس میں بھی کلیدی کردار مونس الٰہی کا ہے جس کا برملا اظہار خود چودھری پرویز الٰہی نے بھی کیا ہے۔
پنجاب میں سردار عثمان بزدار اور پی ٹی آئی کیخلاف وفاقی حکومت اور اتحادیوں کی جانب سے کی گئی مہم جوئی کا جواب چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے خاندان کی تقسیم کی قیمت پر دیا اور عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑا ، مونس الٰہی نے عمران خان سے کیا وہ وعدہ بھی نبھایا کہ گجرات اور مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے ان کے خاندان میں سکھایا جاتا ہے کہ دوستوں کا پورا ساتھ دینا ہے۔
چودھری پرویز الٰہی سے عوام کی امیدیں بے معنی نہیں،اپنی پہلی وزارت اعلیٰ دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک کے دور میں انہوں نے سیاست کو خدمت بنانے کے نعرے کا عملی ثبوت پیش کیا،ان کے دور میں کی جانے والی اصلاحات سے عوام کی بھاری اکثریت آج بھی مستفید ہو رہی ہے،سابق دور میں ان کی جانب سے شروع کی گئی ریسکیو1122آج تک کامیابی سے عوام کی خدمت میں مصروف ہے بعد میں آنے والوں نے اس عوامی سروس کو بند کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے بلکہ دیگر صوبوں نے بھی اس کی تقلید کی اور آج کے پی کے کے بعد سندھ میں بھی ایسی ایمبولینس سروس کا افتتاح کر دیا گیا ہے، انہوں نے نئے ہسپتال بنائے ،ایمر جنسی میں ادویات مفت کیں مگر ان کے شروع کئے گئے وزیر آباد کارڈیک ہسپتال پر تعمیراتی کام بعد میں آنے والی حکومتوں نے روک دیا،نتیجے میں سیالکوٹ،گجرات،جہلم،منڈی بہاء الدین،سرگودھا،شکر گڑھ،نارووال،گوجرانوالہ کے عارضہ قلب میں مبتلاء مریضوں سے علاج معالجہ کا بنیادی حق چھین لیا گیا،تحریک انصاف دور میں اس منصوبہ کو مکمل کر کے فعال کیا گیا، اب چودھری پرویز الٰہی نے پہلا کام یہ کیا کہ اس میں بیڈز کی تعداد کو ایک سو سے بڑھا کر دو سو بیڈ کر دیا ہے۔اسی طرح پڑھا لکھا پنجاب کے ذریعے سکول کے بچوں میں مفت درسی کتب اور مالی وظائف دیے گئے جس سے شرح خواندگی میں مثالی اضافہ ہوا۔ اسی دور میں شہروں میں بے ہنگم ٹریفک کو کنٹرول کرنے اور دور دراز بڑی سڑکوں میں لوگوں کی حفاظت کیلئے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل ٹریفک وارڈنز اور ہائی وے پولیس کا سکواڈ بنایا گیا ،جو نہ صرف ٹریفک کے بہائو کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو انتہائی مہذب انداز میں قانون اور اس کی
اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔
سیاسی معاملات،منصوبہ بندیوں کے علاوہ عوامی مسائل بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے،سیاسی جوڑ توڑ چلتا رہتا ہے لیکن اگر عوام کو نظر انداز کر دیا جائے تو نہ صرف مسائل الجھ جاتے ہیں بلکہ معاملات بھی بگڑ جاتے ہیں،اب سیاست کے ساتھ عوام پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو مہنگائی کی چکی میں دن رات پس رہے ہیں،وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات،بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مہنگائی کے جن کو بے قابو کر دیا ہے،ضرورت اس جن کو قابو میں کرنے کی ہے،کم از کم عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء سستی دستیاب ہو جائیں تو عوام کو سکھ کا سانس آسکتا ہے۔
تحریک انصاف کی ماضی میں پنجاب اور وفاقی حکومت کی ناکامی کی ایک وجہ بیوروکریسی سے ناخوشگوار تعلقات اور عدم اعتماد کی فضا ء تھی،جس کے نتیجے میں حکومت اور انتظامیہ کا تال میل نہ ہو سکا اور حکومتی اقدامات کے اثرات نچلی سطح پر دکھائی نہ دئیے جبکہ چودھری پرویز الٰہی کے بیوروکریسی سے اعتماد پر مشتمل خوشگوار تعلقات ہیں،وہ تحریک انصاف اور بیوروکریسی میں ثالثی کا پل ثابت ہو سکتے ہیں ،آئندہ الیکشن میں کم و بیش ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے اور یہ موقع ہے آئندہ الیکشن کیلئے زمین ہموار کر کے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کا اور اس کیلئے بیوروکریسی کا تعاون اور اعتماد بہت ضروری ہے،ان مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے فوری طور پر سابق وفاقی سیکرٹری اور سابق چیئر مین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پنجاب سلیمان غنی کی سربراہی میں ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں ان کے سابق پرنسپل سیکرٹری جی ایم سکندر،لمز کے دو ماہرین عثمان خان ،نازش افراز اور فنانس و پلاننگ پنجاب کے محکموں کے افسران شامل ہیں۔یہ کمیٹی پنجاب میں پلاننگ،فنانس اور گورننس کے امور پر وزیر اعلیٰ کو گاہے بگاہے اپنی سفارشات پیش کیا کرے گی۔سلیمان غنی اور جی ایم سکندر کا چودھری پرویز الٰہی کی پہلی وزارت اعلیٰ کی کامیابی میں کلیدی کردار تھا۔سلیمان غنی نے اس وقت مثالی سالانہ ترقیاتی پروگرام اور سکیمیں دیں جس سے پنجاب میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں اور جی ایم سکندر نے گورننس اور ارکان اسمبلی سے رابطوں کے لئے دن رات ایک کئے رکھا ،یہ بات بھی خوش کن ہے کہ سابق سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی اب پرنسپل سیکرٹری کے طور پر وزیر اعلیٰ کے سیاسی اور انتظامی رابطوں کو کامیابی سے آگے بڑھائیں گے جبکہ محمد اقبال چودھری تارڑ صحافیوں اور وزیر اعلیٰ کے درمیان پل بنے رہیں گے ۔
سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ پانچ چیف سیکرٹری بھی بڑی مشکل سے چلے ،اس کے برعکس کامران علی افضل پنجاب میں اپنے تیسرے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بھی چیف سیکرٹری کے طور کامیابی سے سفر جاری رکھیں گے ، آئی جی فیصل شاہکار کو بھی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیپٹن اسد اللہ خان کی ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ ، عبداللہ سنبل کی چیئر مین پی اینڈ ڈی اور سید علی مرتضیٰ کی ایڈیشنل چیف سیکرٹری تقرری بہترین فیصلہ ہے مگر فنکار قسم کے ان افسروں کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے جو ہر حکمران کی خوشامد کے لئے اپنا میک اپ تبدیل کر کے مائیکل جیکسن بن جاتے ہیں، ان افسروں سے حساب کون لے گا جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں غیر قانونی کاموں کے لئے پنجاب اسمبلی کا تقدس پامال کیا جس کے نتیجے میں موجودہ وزیر اعلیٰ ،بحیثیت سپیکر زخمی بھی ہو گئے تھے، پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی ایسے فنکاروں اور کلا کاروں کو خوب پہچانتے ہیں۔وزیر اعلیٰ کے ساتھ عمران خان کی پہلی ویڈیو کانفرنس میں سابق ممبر بورڈ آف ریونیو بابر حیات تارڑ کا ان کے کاموں کے حوالے سے عمران خان نے کافی تذکرہ کیا ،دیکھتے ہیں انہیں کیا ذمہ داری دی جاتی ہے۔