فنانشل ٹائمز نے مہاتما کی امانت، دیانت اور ایمانداری کا ڈھول بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے۔ تحریک انصاف کو پروان چڑھانے کے لیے جس سرمائے کی ضرورت تھی وہ دنیا بھر سے اکٹھا کر کے انہیں فراہم کیا گیا۔ فنانشل ٹائمز نے تو صرف ایک شخص کی بات کی ہے۔ اس طرح کے بہت سے افراد اور ادارے ابھی تک سامنے نہیں آئے جنہوں نے ہیرو کو راج سنگھاسن پر براجمان کرانے کے لیے دل کھول کر عطیات دیے ہیں۔ چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کو یہ عطیات دیے ہیں لیکن یہ سارے عطیات شوکت خانم کے لیے تھے۔ خیراتی ادارہ جس کے بارے میں دنیا بھر میں تشہیر کی گئی کہ وہاں غریبوں کا مفت علاج ہو گا اور چونکہ کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے اس لیے مخیر حضرات تعاون کریں۔ ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق مدد کی لیکن انہیں اس بات کی کیا خبر تھی کہ ان کا دیا جانے والا پیسہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو گا۔ فواد چودھری کی یہ بات مان لیتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانی تحریک انصاف کی رکنیت کے لیے پیسہ دیتے ہیں اس پر تو کوئی بات نہیں کر رہا بلکہ اعتراض تو ان ٹرانزیکشنز پر ہے جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ اگر ایک بھارتی یا اسرائیلی تحریک انصاف کو پیسہ دے رہا ہے تو کیوں دے رہا ہے۔ دنیا بھر میں یہی چلن ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے ہم وطنوں سے پیسہ اکٹھا کرتی ہیں لیکن دوسری حکومتوں یا غیر ملکیوں سے چندہ مہم کے تحت پیسہ وصول نہیں کرتیں۔ پاکستان میں بھی یہی اصول اور قانون ہے۔ عمران خان کے مخالف فنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ کو خان کے خلاف فرد جرم سے تعبیر کر رہے ہیں کہ اس نے انتہائی مدلل انداز میں تحقیق کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ عمران خان کو عارف نقوی کی جانب سے ملنے والا پیسہ دراصل پاکستانیوں کا پیسہ نہیں تھا اور عارف نقوی محض ایک فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے ہوئے عمران خان کے لیے فنڈز اکٹھے کر کے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں ڈال رہا تھا۔ اگر یہ پیسہ شوکت خانم کے لیے تھا تو اسے شوکت خانم کے اکاؤنٹ میں جمع ہونا چاہیے تھا۔
فنانشل ٹائمز کے مندرجات کے حوالے سے تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ ہم ان فنڈز کی وصولی کی تصدیق کر رہے ہیں لیکن اس کی منی ٹریل کے بارے میں بات کرنے سے انکاری ہیں۔ فنانشل ٹائمز نے کیا کہا ہے کہ آئیے ذرا اس پر نظر ڈالتے ہیں ’’اپنی کامیابی کے عروج پر، پاکستانی ٹائیکون عارف نقوی نے کرکٹ کے سپر سٹار عمران خان اور سیکڑوں بینکرز، وکلا اور سرمایہ کاروں کو آکسفورڈ شائر کے گاؤں ووٹن میں اپنی دیواروں سے گھری کنٹری سٹیٹ میں ہفتے کے آخر میں کھیل اور شراب نوشی کے لیے مدعو کیا۔ میزبان دبئی میں قائم ابراج گروپ کے بانی تھے، جو اس وقت ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں کام کرنے والی سب سے بڑی نجی ایکویٹی فرموں میں سے ایک تھی، جس کے زیر انتظام اربوں ڈالر تھے۔‘‘ یہ وہ کہانی ہے جو عارف نقوی کی پارٹی کے حوالے سے ہے مگر آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ جن لوگوں کو مدعو کیا گیا ان سے 2000 سے 2500 پونڈز شرکت کے لیے وصول کیے گئے۔ یہ برطانیہ میں ایک بڑی رقم تصور ہوتی ہے اور یقینی طور پر اس پارٹی میں شرکت کرنے والے متمول لوگ تھے جو ایک رات کو رنگین بنانے کے لیے اتنی بڑی رقم عطیہ کر رہے تھے۔ ووٹن کرکٹ لمیٹڈ بھی وہی کام کر رہی تھی جو آف شور کمپنیاں کر رہی تھیں اور نامعلوم خیراتی کام کے لیے پیسہ اکٹھا کیا جا رہا تھا۔ دعوت نامے یا کسی بھی ذریعے سے مہمانوں کو یہ نہیں کہا گیا کہ دراصل یہ رقم عمران خان کی تحریک انصاف کو پروان چڑھانے کے لیے دی جا رہی ہے۔ عمران خان کی بدقسمتی کا آغاز یہاں سے ہوا کیونکہ اس پارٹی میں شریک ہونے والوں کی اکثریت نے یہ فنڈز ووٹن کرکٹ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے۔ تحریک انصاف یہ کہتی ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ عارف نقوی نے یہ پیسہ کس طرح لیا ہے لیکن یہ ایک ٹرانزیکشن نہیں بلکہ عارف نقوی نے عمران خان اور تحریک انصاف کے اکاؤنٹس میں کئی بار رقوم ارسال کی ہیں۔
عارف نقوی ایک بزنس مین تھا اس نے دنیا بھر سے خیراتی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے چندہ اکٹھا کیا اور کئی حکومتوں کے ساتھ مل کر اپنے منصوبوں کو آگے بڑھایا۔ اس کا ابراج گروپ ایک کاروباری ادارہ تھا جس کے دفاتر دنیا کے مختلف ممالک میں تھے۔ لوگوں نے اس پر اعتماد کیا لیکن اس نے لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسہ اکٹھا کر کے ہڑپ کر لیا۔ ابھی تو ووٹن کرکٹ کے معاملات سامنے آئے ہیں پتہ نہیں کیا کچھ نہیں کیا گیا ہو گا۔ فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ ’’فنانشل ٹائمز کی طرف سے دیکھی گئی ابراج کی ای میلز اور اندرونی دستاویزات، جس میں یو اے ای میں ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ کے لیے 28 فروری سے 30 مئی 2013 کے درمیانی عرصے کا احاطہ کرنے والا بینک سٹیٹمنٹ بھی شامل ہے، ظاہر کرتی ہے کہ دونوں کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شہریوں نے ووٹن کرکٹ کو لاکھوں ڈالر بھیجے۔ جو بعد میں اس اکاؤنٹ سے تحریک انصاف کے لیے پاکستان منتقل کیے گئے۔‘‘ متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کو بھی نہیں بخشا کیا اور وہاں سے بھی کثیر رقوم حاصل کی گئیں۔ ’’بینک سٹیٹمنٹ اور سوئفٹ کی رسید کے مطابق، ابوظہبی کے شاہی خاندان کے رکن، حکومتی وزیر اور پاکستان کے بینک الفلاح کے سربراہ شیخ نہیان بن مبارک النہیان نے اپریل 2013 میں ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ میں مزید 20 لاکھ ڈالر کی رقم جمع کی۔ اس کے بعد نقوی نے ایک ساتھی کے ساتھ 1.2 ملین ڈالر مزید پی ٹی آئی کو منتقل کرنے کے بارے میں ای میلز کا تبادلہ کیا۔ ووٹن کرکٹ بینک اکاؤنٹ میں 2 ملین ڈالر آنے کے چھ دن بعد، نقوی نے اس سے 1.2 ملین ڈالر دو قسطوں میں پاکستان منتقل کر دیے۔ کیش منتقلی کے انتظام کے ذمہ دار ابراج کے سینئر ایگزیکٹو رفیق لاکھانی نے نقوی کو ایک ای میل میں لکھا کہ ٹرانسفر پی ٹی آئی کے لیے تھی۔‘‘
اخبار ایک جگہ عارف نقوی کے زوال کی داستان لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ابراج 2018 میں اس وقت تباہی کا شکار ہو گیا جب گیٹس فاؤنڈیشن سمیت سرمایہ کاروں نے تحقیقات شروع کیں کہ آیا کمپنی ایک فنڈ میں رقم کا غلط استعمال کر رہی تھی جس کا مقصد افریقہ اور ایشیا میں ہسپتالوں کو خریدنے اور تعمیر کرنا تھا۔ ابراج نے کہا کہ وہ اس وقت تقریباً 14 بلین ڈالر کے اثاثوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ 2019 میں، امریکی استغاثہ نے نقوی اور ان کے پانچ سابق ساتھیوں پر فرد جرم عائد کی۔ ابراج کے دو سابق ایگزیکٹوز نے اس کے بعد جرم قبول کر لیا ہے۔ نقوی نے الزامات سے انکار کیا۔ نقوی کو پاکستان سے واپس آنے کے بعد اپریل 2019 میں لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا اور امریکی الزامات میں قصوروار ثابت ہونے کی صورت میں انہیں 291 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ خان کا ٹیلی فون نمبر ان رابطوں کی فہرست میں شامل تھا جو انہوں نے پولیس کے حوالے کیا تھا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ذکر امریکی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے لندن میں نقوی کی حوالگی کے مقدمے کے دوران کیا تھا۔‘‘
میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ تحریک انصاف اور پی ٹی آئی کے لیے عارف نقوی پیسہ اکٹھا کرنے والا اکیلا شخص نہیں تھا دنیا بھر اس طرح کے کئی لوگ ہیں جو عمران خان کے لیے رقوم اکٹھی کر کے بھیجتے رہے ہیں۔ ان الزامات کی تحقیقات الیکشن کمیشن کر کے اپنی سماعت مکمل کر چکا ہے۔ آٹھ سال سے زیر التوا ہے اور اب چونکہ اس کیس کا فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس میں تاخیر کر رہا ہے۔ فنانشل ٹائمز کی اس کہانی کے بعد عمران خان کی اخلاقی پوزیشن بہت کمزور ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر حق اور سچ پر یہ فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ عوام کو علم ہو سکے کہ کیا یہ پارٹی پاکستانیوں کے پیسے سے چل رہی ہے یا غیر ملکی اور خاص طور پر یہودی اور بھارتی لابی اس کو فنڈ کرتی رہی ہے۔