پے در پے خوفناک، المناک، اذیت دہ واقعات نے دل دماغ زخمی کر رکھا ہے۔ جابجا لڑکیاں پارٹنرز کے ہاتھوں رگیدی گئیں۔ خاندانوں کو زندہ درگور کرگئیں۔ خود خوار و زار ذلت کے گڑھوں میں عیاش، بدمعاش عناصر کے ہاتھوں زندگی لٹا بیٹھیں۔ ذبیحے، خودکشی کا انجام مقدر ہوا۔ اسی پر بس نہیں۔کردار کی گراوٹ نے معصوم بچے، بچیوں تک سے مستقبل چھین کر ملک وقوم کے مقدر میں تاریکیاں بھردیں۔ دینی عناصر کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ گزشتہ 20 سالوں میں ایمان اور خیر کی ہر آواز کا گلا گھونٹا گیا۔ روشن خیالی، سافٹ امیج کے منہ زور گھوڑے پر سوار جس امریکا کی خوشنودی پر سب کچھ لٹایا تھا، وہ خود منہ کے بل گر کر ھواللہ احد بہ زبان حال کہہ رہا ہے۔ ہر ایسے واقعے پر خلط مبحث کے طومار باندھے جاتے ہیں۔ ہر مرض (خواہ وہ جسد انسانی کو لاحق ہو یا جسد قومی کو) تشخیص طلب ہوتا ہے۔ اسباب، وجوہات، جڑ تک پہنچا جاتا ہے۔ بسااوقات ردعمل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ مریض اپنا مرض تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہے۔ علاج کرنے والے بھی مریض ہی ہیں! پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے فکری اخلاقی امراض کا علاج حکیم مغرب سے پوچھ پوچھ کر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مرض بگڑکر پیچیدہ اور مزمن ہوجاتا ہے۔ آئے دن کے ایسے واقعات پارٹنر شپ، شتر بے مہار آزادی، پدرسری نظام (باپ کی سربراہی اور تحفظ پر مبنی مسلم خاندانی نظام) سے بغاوت کا شاخسانہ ہے۔ اب عورت اپنے مقام کے تقدس، پاکیزگی اور نزاکت کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید، ظاہری چکاچوند سے مرعوبیت! عبرت پکڑنے کی بجائے 22 ہزار وولٹ کے خطرے سے معمور تاروں کو سبھی حدود پار کرکے جا چمٹتی ہے۔ ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی…… کی آئے دن کی داستانیں۔
پس پردہ وجوہات میں سب سے بڑی وجہ عقیدہ اور ایمان اپنی شناخت کھو دینا ہے۔ ’اور جس روز قیامت برپا ہوگی، گنہگار قسمیں کھا کھاکر کہیں گے کہ ہم (دنیا میں) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ اسی طرح وہ دنیا میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔ اور جن لوگوں کو علم وایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ اللہ کی کتاب کے مطابق تم قیامت تک رہے ہو اور یہ قیامت ہی کا دن ہے لیکن تمہیں اس کا یقین نہ تھا۔ پس وہ دن ہوگا جب ظالموں کی ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کو کہا جائے گا۔‘ (الروم۔ 55-57) آخرت میں رب تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا احساس، انسان اور حیوان کا بنیادی فرق ہے۔ یہی انسان کو اشرف المخلوقات بناکر عظمت ِکردار کی اعلیٰ ترین مثالوں کو جنم دیتا ہے۔
ان 20 سالوں میں کچھ اصطلاحات ہم نے کھو دی ہیں۔ ’گناہ‘ دقیانوسیت کی علامت ہے۔ ’اجر وثواب‘ کی جگہ مال ودولت ڈالر یورو ریال میں عزت بزرگی، بڑائی تلاش کی جاتی ہے۔ ’تقویٰ‘ کلیتاً اجنبی اصطلاح ہے۔ پرہیزگاری اور خوف کا مقام یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جو گورے چودھریوں کو ناراض کردے۔ ’نامحرم‘ سرے سے کوئی جنس نہیں جس کا وجود ہو۔ بلانکاح پارٹنر محرم ہوگئے۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد۔ صرف یہ دو لرزہ خیز واقعات والدین اور معاشرے کے ہوش اڑا دینے کو کافی ہیں۔ ملک کا ذی شعور طبقہ، فکر ونظر والے نظریں نہ چرائیں۔ اپنی ذمہ داری محسوس کریں آگے بڑھیں۔ بالخصوص علماء، دینی جماعتیں، 20 سالوں میں جس معذرت خواہانہ رویے پر مجبور کیے گئے، اب ان معاملات پر قیادت کا منصب سنبھالیں۔ اللہ کے آگے جوابدہی ہر زبان ہر قلم سے ہوگی۔ سرحد پار حالیہ مثال ایک مضبوط موقف، بے لاگ پرحکمت اظہار رائے، دنیا کی ساری سیاسی سفارتی مہارتوں کو شریعت مطہرہ ومعظمہ کی زبان سے دی جاتی شہ مات لائق تقلید ہے۔
دوسری طرف والدین ہوش کے ناخن لیں۔ اعلیٰ تعلیم کے نام پر کمترین درجے کی مخلوط تعلیم دونوں ہاتھوں سے جیبوں پر ڈاکا ڈالنے اور اخلاق وکردار تباہ کرنے کے ذریعے آپ کا اور آپ کی اولادوں کا استحصال کر رہی ہے۔ حزب الشیطان کی بھرتی کھل چکی ہے۔ تعلیمی اداروں میں نصابوں کی زبوں حالی، تعلیمی معیار کی پستی کے ساتھ اب صرف عشق عاشقی، حرص وہوس کی زبان، ٹک ٹاک، واٹس ایپیاں، ہیش ٹیگ کی زبان باقی رہ گئی ہے۔ ہر نیا واقعہ سوشل میڈیا پر طوفان اٹھاتا ہے۔ گدھے سے گرکر کمہار پر غصہ اگلتا ہے اور ایمان، اسلام کے سارے کھمبے نوچ ڈالتا ہے۔ نور مقدم نامی لڑکی کے بہیمانہ قتل پر ازخود رہنمائی کے منصب پر جا بیٹھنے والی اداکاراؤں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد بل منظور نہ کرنے، مخالفت کرنے والوں کی بنا پر یہ ہوا ہے! حالانکہ یہ واقعہ تو ’پارٹنر تشدد‘ پر مبنی ہے۔ گھریلو تشدد تو کجا، صرف مضبوط ہاتھ سے اولاد روکی سنبھالی جائے، گھر کا تحفظ مضبوط ہوتو حرام دوستوں کے پھندے میں درندوں کے ہاتھوں بے چارگی سے ذبح تو نہ ہو۔
کوریا میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے والد نے رپورٹ درج کروائی۔ وہ خود اور اہلیہ گھر پر نہ تھے۔ دونوں گھر لوٹے تو بیٹی گھر نہ تھی اور اس کا فون بند تھا۔ بعدازاں بیٹی نورمقدم کا فون آیا کہ وہ دوستوں کے ہمراہ لاہور جا رہی ہے، ایک دو دن میں آجائے گی۔ اسی رات پولیس کی اطلاع پر والد موقع پر (اسلام آباد) پہنچے، جہاں بیٹی ذبح ہوئی پڑی تھی۔ اس المناک واقعے میں لڑکی کم عمر ناسمجھ نہیں، 27 برس کی تھی۔ والد کی سفارتی زندگی کی بنا پر وسیع تر دنیا دیکھی ہوئی تھی۔ ملزم سے دیرینہ تعلق تھا۔کھلے آنکھوں یوں موت کی وادی میں جا اتری۔ بلانکاح پارٹنر شپ یا مردوں کی دوستی کا رشتہ کتنا ناقابل بھروسا اور ناپائیدار ہے۔ بااثر باپ کا بیٹا قانون کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے یا نہیں وقت بتائے گا۔
دوسرا واقعہ جو چند دن پہلے تک ہیش ٹیگ پر سوار ذہنوں پر ہتھوڑے برساتا المناک شرمناک ہے۔ ہیش ٹیگ حیا کے عنصر کو آڑے نہیں آنے دیتا۔ ظالم اور مظلوم کے پیرائے میں ہنگامہ کھڑا کرتا ہے۔ انصاف مانگتا ہے، اسلام آباد کی اس لڑکی کے لیے جس نے خود اپنے اوپر ظلم ڈھایا۔ ضمیر کا گلا دباکر اپنی گراں قدر ذات سے انصاف خود نہ کیا۔ نفسانی خواہشات کے شکنجے میں پارٹنر کے ساتھ اس کی بدنیتی میں لڑکی رضا ورغبت سے شریک ہونے گئی تھی۔ پورے گروہ نے گھیر کر ذلت کا وہ ہولناک سامان کیا جو بیان سے باہر ہے۔ بے حیائی کے مارے مریض معاشرتی عناصر نے اس پارٹنر شپ کی وڈیو کو ختم کردینے کی بجائے رسوائی کے سامان کو ہاتھوں ہاتھ پھیلایا۔ گناہ عظیم میں شراکت کار بنے۔ بعدازاں پارٹنرز نے فوری نکاح کرکے زمرہئ حلال میں آنے کی سعی کی۔ بعد از خرابیئ بسیار۔
کیا ایسے مواقع پر قوم کی رہنمائی کے منصب پر ٹویٹر فائز ہوگا؟ عید پر ہونے والے نورمقدم سانحے پر باربار یہ ٹویٹس کہ یہ عید نہیں ہے۔ یہ عید نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمارا ملک نہیں ہوسکتا!‘ بالکل درست، بجا فرمایا۔ 2001ء کے بعد بڑی محنت سے قدم بقدم چل کر ملک کو ایسا بنایا گیا۔ اس کی عیدیں اجاڑکر نوجوانوں پر ہیلو وین اور ویلنٹائن ڈے مسلط کیے گئے۔ رمضان کی قرآن اور تقوے بھری راتوں کے بعد آنے والی عید، اس کے مطالبے اور تقاضے، نتائج وثمرات کس نے پڑھائے، کس نے پڑھے۔ ذی الحج میں اپنی ماں سیدہ ہاجرہؑ، باپ سیدنا ابراہیمؑ واسماعیلؑ کی رب تعالیٰ کی چوکھٹ پر محبت کی معراج پر دی جانے والی قربانیاں کس نے جانیں۔ ان ہستیوں سے قلبی تعلق کب پیدا ہونے دیا گیا۔ مسلمان راکھ کا ڈھیر ہوچکا۔ اب عشق ومحبت ویلنٹائن ڈے کی حرام ناپاک پارٹنر شپ کا انجام ہیلووین کی بھوت بلاؤں کا سا نہ ہو تو کیا ہو۔ یہ دونوں کفر کے تہوار تمام فائیو اسٹار نجی تعلیمی اداروں میں اسکول تا یونیورسٹی عشق عاشقی کے سامان فراواں کرتے ہیں۔ فارم ہاؤس منشیات، مخلوط رقص وسرود کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ بڑے بڑے اسٹار اور سیلیبریٹیاں ان راتوں کو رنگین بناتی ہیں۔ بعدازاں پھوٹنے والے شیطانی جرائم، ریپ، قتل یا خودکشی جو بھی ہو، جنازوں کو کندھا دینا ان کا کام نہیں۔ یہ صرف جذبات کی بھٹی سلگا کر مرثیے پڑھتے اور مزید آزادی مانگتے ہیں۔ مولویوں، ’بے انصاف‘ معاشرے کو مطعون کرتے ہیں۔
اب نئی زندگی (جس کا سامنا خواہی نخواہی کرنا ہے) کے پہلے مرحلے میں بہرطور منکر نکیر کے انٹرویو سے تو گزرنا پڑے گا، جس کی تیاری سے بچابچاکر پالا جاتا ہے۔ اکیڈمی در اکیڈمی رلتے حقیقی زندگی سنوارنے سے کلیتاً ناآشنا ہوتے ہیں۔ نمونہ بنا رکھی گئی سیلیبریٹیاں صرف خودکشی کی راہ دکھاتی ہیں یا اجڑے دماغوں کو منشیات کا پتا بتاتی ہیں۔ تلخ ترین حقائق دینی، مڈل کلاس شریف گھرانوں کا رخ بھی کرچکے ہیں۔ موبائل اور عصری تعلیم پس پردہ، پس حجاب بھی کارگزاری دکھا رہی ہے۔ محفوظ پاکیزہ ماحول یقینی بنانا، والدین کا بچوں پر اندھا اعتماد نہ کرنا، بالخصوص دوستیوں پر نگاہ رکھنا، موبائل سے بچانا ازبس لازم ہے۔ شادی کے لیے قابل حصول معیارات قائم کرنا۔ ذات برادری حیثیت دیکھتے بچیاں بچے کھودینے کی بجائے جلدی شادی واحد پناہ گاہ ہے۔اس سب کے باوجود ’پارٹنر تشدد بل‘ اسمبلیوں میں پیش ہونے کی بجائے گھروں کا رہاسہا تقدس اور تحفظ ختم کرنے کو ’گھریلو تشدد بل‘، خاندانی نظام پر مارجنیوں کا خودکش حملہ ہوگیا! مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا! ایک طرف یہ شتر بے مہار آزادی کے نتائج ہیں،دوسری طرف ’گھریلو تشدد بل‘ ہے جو اگر قانون کی صورت اختیار کرلے تو خدانخواستہ گھر گھر سانحات ہوں گے۔
یہ آزادی کی چیخ وپکار کیا ہے؟ آزادی اصلاً ہر تعلق توڑنے کا نام ہے۔ تعلق انسان کو باندھتا ہے۔ تعلق محبت اور خوف کے بندھن کا نام ہے۔ خواہ اللہ سے ہو، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو۔ والدین یا شوہر سے ہو۔ یہ محبت میں گندھا خوف ہوتا ہے کہ اس تعلق پر آنچ نہ آئے۔ میں رد نہ ہوجاؤں۔ نظروں سے نہ گرجاؤں۔ تنہا نہ رہ جاؤں۔ یہی تعلق اقدار بناتا ہے۔ مروت، حیا، غیرت دیتا ہے۔ اسی تعلق کی پاس داری ہر حد شکنی، بے راہ روی کے خلاف بریک اور رکاوٹ بنتی ہے۔ یہی اسلامی تہذیب میں سیرت سازی، کردار سازی کا بنیادی عنصر ہے۔
اپنی امت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؑ