پتہ نہیں وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب ہم نے ہلکے پھلکے کالم لکھتے لکھتے سیاسی کالم لکھنے کا فیصلہ کیا۔ تب ہم نے یہ ہرگز نہیں سوچا کہ ہلکے پھلکے کالم تو تفریح طبع کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن سیاسی کالم دل کے پھپھولے پھوڑنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ سیاسی گٹر میں اترنے کے بعد ہم نے پیشین گوئیوں کی ٹھانی کہ اُس وقت طوطا مینا اور چڑیا رکھنے والے کالم نگار بہت مقبول تھے۔ ہم اِس میں کامیاب بھی رہے کہ ہمارے افلاطونی کالموں کے تجزیے بہرحال لال حویلی والے کے ”طوطا فال“ سے کہیں بہتر تھے۔ لال حویلی والے کی پیشین گوئیاں تو ”ستو“ پی کر سوتی رہتی تھیں جبکہ ہماری کبھی کبھار سچ بھی ہو جاتیں جنہیں ہم ہر کہ و مہ کو اُتنے ہی شوق سے سناتے جتنے شوق سے شعراء اپنے اشعار سناکر سامعین کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اب ”اوازار“ ہوکر ہم نے بوجوہ سیاسی کالموں سے توبہ کر لی ہے مگر یاد رہے کہ ہم چچا غالب کے معنوی شاگردِ رشید ہیں جو فرما گئے
غالب چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ اَبر شبِ ماہتاب میں
اِس لیے اگر کبھی ہم اپنے عہد کو فراموش کر گئے تو ”پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی“۔ ویسے بھی ہمارے ہیرو، ایٹمی پاکستان کے سربراہ کا فرمان ہے کہ جو یوٹرن نہیں لیتا وہ احمق ہے۔ اِس لیے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو ”صفِ احمقاں“ میں شمار کرنے لگیں۔ فی الحال ہمارا سیاسی گَٹر میں اُترنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل ہم نے نیوز چینلز کی بجائے تفریحی چینلز دیکھنا شروع کر دیئے ہیں جن کی بدولت ہمارے ”ساڑے بھوجے“ کو کافی افاقہ ہوا ہے اور ہم خوش وخرم رہنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا سے بھی ہم نے توبہ کر لی ہے کیونکہ وہاں لوگ زیادہ تر جھوٹ کی آڑھت سجائے بیٹھے ہیں۔ ٹویٹر تو ہے ہی گمراہ کُن خبروں کا اکھاڑاجہاں ہمہ وقت نقلی پہلوان زور آزمائی کرتے رہتے ہیں۔
ہم نے بہت سوچ بچار کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہے کہ سیاست کے کیچڑ میں اُترنے کا ”کَکھ“ فائدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اُس سیانے بَیل کی طرح ہو گئے ہیں جسے کسی نے بَد دعا دی ”ڈھگیا تینوچور لے جان“۔ بیل نے مسکرا کر جواب دیا ”سائیاں تے پٹھے ای کھانے نیں“۔ ہم جمہور ہیں اور جمہور کا کام ”پہلے پیٹ پوجا، پھر کوئی کام دوجا“۔ حکومت نواز کی ہو یا شہباز کی، عمران کی ہو کی ہو یا بلاول کی، ہمیں صرف اپنے پیٹ کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ عوام اورخواص ریل کی پٹڑی کی
مانندہیں جو ہمیشہ متوازی چلتی ہے اور کبھی آپس میں نہیں ملتی۔ اگر جمہور میں سے کبھی کسی کو حکمرانی کا شوق چرائے تو وہ تاریخِ پاکستان پر ایک نظر ضرور ڈال لے۔ اُسے پتہ چل جائے گا کہ کوئی حکمرانی کے مزے لوٹتے لوٹتے تارا مسیح کے ہتھے چڑھ گیا، کسی کو ٹارگٹ کلنگ نے نگل لیا، کوئی فضاؤں میں ریزہ ریزہ ہوگیا اور کوئی یہ گنگناتا ہوا پایا گیا ”چھوٹا اپنا دیس، ہم پردیسی ہو گئے“۔ ہمیں بَس یہی یاد رکھنا چاہیے کہ خارجہ امور ہوں یا داخلہ، نہ ہماری آواز کوئی سنتا ہے اور نہ ہی ہمارے بَس میں کچھ ہے اِس لیے جلنے کڑھنے کی بجائے صبر کرکے بیٹھ رہنے میں ہی عافیت ہے۔ اکبر الہ آبادی نے کہا
تھی شبِ تاریک، چور آئے سب کچھ لے گئے
کر ہی کیا سکتا تھا بندہ کھانس لینے کے سوا
اگر مارشل لاء کی چھتر چھایہ نہ ہو تو ہم بھی ہر پانچ سال بعد”کھانس“ لیتے ہیں حالانکہ ہمیں خوب علم ہوتا ہے کہ ”دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھُلا“۔ ہماری ایک نصیحت پَلّے باندھ لیں کہ کھانسنے کا موقع پانچ سالوں میں صرف ایک بار ہی ملتاہے۔ اگر آگے پیچھے کھانسنے کی کوشش کی جائے تو ”کھُنّے سِک“ جاتے ہیں اِس لیے احتیاط لازم۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ سیاست کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر جلتے کُڑھتے رہتے ہیں اور بڑے بوڑھوں کو یہ کہتے بھی سنا ”محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی“۔ ہم مگر کہتے ہیں کہ اگر سیاست میں گالیوں کا رواج پڑ گیا تو ہماری صحت پر کیا اثر کہ ہم گالی دیتے ہیں نہ سنتے، یہ کام اُنہی کا ”جن کے حوصلے ہیں زیاد“۔ اگر پارلیمنٹ میں دھینگا مُشتی ہوتی ہے تو اِس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ عوام کو مفت میں تفریح میسر آجاتی ہے اور اینکرز کے ہاتھ ایک موضوع جسے مرچ مصالحہ لگا کر وہ اپنی ریٹنگ بڑھاتے ہیں۔ اگر اِس دھینگا مُشتی سے کچھ لوگوں کی روزی روٹی کا سامان پیدا ہو جاتا ہے تو دوسروں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اُٹھتے ہیں۔ اگر مہنگائی اپنے عروج پر ہے تو اِس میں بھی اپنا ہی فائدہ ہے جس کے لیے ہمیشہ ہم وزیرِاعظم کو دعائیں دیتے ہیں۔ سیانے کہہ گئے ”تھوڑا تھوڑا کھائیے تے نِت چولہے وَل جائیے“۔ ڈاکٹر بھی خوراک میں اعتدال پر زور دیتے ہیں لیکن ہمارا معاملہ بالکل اُلٹ۔ انگریزوں کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ برگر اور سینڈ وِچ کھا لیتے ہیں۔ پاکستانی ایک سینڈوِچ اور دو برگر کھا کر کہتے ہیں ”بَس کر دے، فیر روٹی نئیں کھادی جانی“۔ پاکستانیوں کوکھانا کھانے کے بعد پیٹ پر ہاتھ پھیر کر ڈکار لینے سے ہی فرصت نہیں ہوتی تھی۔ صبح اُٹھتے ہی سری پائے اور حلوہ پوری کا ناشتہ ساتھ پیڑوں والی لسّی، دوپہر کو پھر پیٹ پوجا، سہ پہر کو پھر ہلکی پھلکی خوراک اور رات کے طعام کے بغیر تو زندگی ہی روکھی پھیکی۔ اب وزیراعظم نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے قوم کی خوراک میں اعتدال پیدا کر دیا ہے اور اُسے دو بلکہ ڈیڑھ وقت کی روٹی بھی بمشکل نصیب ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس ”پابندی“ کے بعد قومی صحت میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ اگر حاسد اِسے مہنگائی کہتے ہیں تو کہتے رہیں۔ ہم تو بہرحال خوش ہیں کہ مفت میں ”ڈائیٹنگ“ ہو رہی ہے اورکسی ”سلمنگ سنٹر“ کے دھکے بھی نہیں کھانے پڑتے۔
بات ہو رہی تھی جمہور کی جسے ہر پانچ سال بعد صرف ”کھانسنے“ کی اجازت ہوتی ہے۔ اِسی جمہور سے جمہوریت نکلی جس کی ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ہم جمہوریت جمہوریت کے راگ تو الاپتے رہتے ہیں لیکن بی بی جمہوریت تو زورآور کے گھر کی لونڈی دَر کی باندی ہے۔ ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بہت مقبول ہوا، گلی گلی میں اِس کا شور اُٹھا لیکن نتیجہ یہ کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں نوازلیگ ”لَم لیٹ“ ہو گئی اور سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں اپنی وہ سیٹ بھی گنوا بیٹھی جس پر اُسے کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ زورآوروں نے ثابت کر دیا کہ ووٹ کی عزت بھی اُنہی کے ہاتھ میں ہے اور جو چاہے اُن کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ آزادکشمیر کے انتخابی معرکے میں مریم نواز کے جلسے محیرالعقول تھے اور تجزیہ نگار بھی اپنی یہ رائے دینے میں ڈانواں ڈول کہ آزادکشمیر کے عام انتخابات میں وہی سیاسی جماعت حکومت بناتی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ ہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ شاید اِس مرتبہ نتائج مختلف ہوں لیکن ہوا یہ کہ 6 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی تحریکِ انصاف کو 26 سیٹیں مل گئیں، 5 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی نوازلیگ کو صرف 6 سیٹیں اور ساڑھے 3 لاکھ ووٹ لینے والی پیپلزپارٹی 11 سیٹوں کی حقدار ٹھہری۔ کوئی ہمیں بتائے کہ کیا جمہوریت اِسی کا نام ہے؟۔ صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ تحریکِ انصاف بلاشرکتِ غیرے حکومت بنائے گی جس کے ساتھ صرف 6 لاکھ جمہور ہیں جبکہ اپوزیشن کے 12 لاکھ جمہور دھکے کھاتے پھریں گے کیونکہ وطنِ عزیز میں یہی رسم ہے کہ جیتنے والی جماعت اپنوں کو نوازتی اور اپوزیشن کو رَگڑا دیتی ہے۔ اگر یہی جمہوریت ہے تو ایسی جمہوریت سے ہم باز آئے۔ قارئینِ کرام! انتہائی معذرت کہ ہم جذبات کی رَو میں بہہ کر اپنے تازہ بتازہ عہد پر یوٹرن لے بیٹھے۔ سچی بات یہ کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلاہم کب ایک دفعہ پھر سیاست کو ”ٹھونگے“ مارنے لگے۔ خاطر جمع رکھیں، ہم اپنے اِس عہد پر قائم ہیں کہ سیاست سے توبہ ہی بھلی۔