محمد مشتاق رانا ایڈووکیٹ
(1) وہ فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت فی الوقت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کا نااہل ہو۔
تشریح: اس پیراگراف کی اغراض کے لیے ’’قانون‘‘ میں آرٹیکل 89 یا آرٹیکل 128 کے تحت جاری کردہ کوئی آرڈیننس شامل نہیں ہوگا۔
(2) اگر کوئی سوال اٹھے کہ آیا مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا کوئی رکن، رکن رہنے کے لیے نااہل ہو گیا ہے تو اسپیکر یا جیسی بھی صورت ہو، چیئرمین، تاوقتیکہ وہ فیصلہ کرے کہ مذکورہ کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ اس سوال کو، مذکورہ سوال پیدا ہونے سے تیس دن کے اندر، الیکشن کمیشن کو بھیجے گا اور اگر وہ مذکورہ بالا مدت کے اندرایسا کرنے میں ناکام ہو جائے تو اس کو الیکشن کمیشن کو ارسال کردہ مقصود کیا جائے گا۔
(3) الیکشن کمیشن اس سوال کا اس کی وصولی سے یا اس کو وصول کیا گیا متصور ہونے کے نوے دنوں کے اندر فیصلے کرے گا اور اگر اس کی یہ رائے ہو کہ رکن نااہل ہو گیا ہے تو وہ رکن نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔
انحراف وغیرہ کی بنیاد پر نااہلیت:
63(الف)۔ (1) اگر کسی ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن …
(الف) اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو جائے یا کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو جائے، یا
(ب) اس پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جس سے اس کا تعلق ہو، جاری کردہ حسب ذیل سے متعلق کسی ہدایت کے برعکس ایوان میں ووٹ دے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرے…
(اول) وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب: یا
(دوم) اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ، یا
(سوم) کسی مالی بِل یا دستوری (ترمیمی) بِل:
تو پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر اعلان کر سکے گا کہ وہ اس سیاسی جماعت سے منحرف ہو گیا ہے اور یہ پارٹی کاسربراہ اعلان کی ایک نقل افسر صدارت کنندہ اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکے گا اوراسی طرح اس کی ایک نقل متعلقہ رکن کو بھیجے گا:
مگر شرط یہ ہے کہ اعلان کرنے سے پہلے، پارٹی کا سربراہ رکن کو اس اس بارے میں خوب اظہار وجودہ کا موقع فراہم کرے گا کہ کیوں نہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کردیا جائے۔
تشریح: ’’پارٹی کا سربراہ‘‘ سے کوئی شخص، خواہ کسی بھی نام سے پکارہ جائے، پارٹی کی جانب سے جیسا کہ مظہرہ ہو مراد ہے۔
(2) کسی ایوان کا کوئی رکن کسی پارلیمانی پارٹی کا رکن ہو گا اگر وہ ایسی سیاسی جماعت کے جو ایوان میں پارلیمانی پارٹی تشکیل کرتی ہو، امیدوار بانامزد کے طور پر منتخب ہو کر یا کسی سیاسی جماعت کے امیدوار یا نامزد کی حیثیت کے علاوہ بصورت دیگر منتخب ہو کر، مذکورہ انتخاب کے بعد تحریری اعلان کے ذریعے مذکورہ پارلیمانی پارٹی کا رکن بن گیا ہو۔
(3) شق (1) کے تحت اعلان کی وصولی پر، ایوان کا افسر صدارت کنندہ دودن کے اندر وہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو جائے تو یہ متصور کیا جائے کہ اس نے ارسال کردیا ہے جو اعلان کو الیکشن کمیشن کے سامنے اس کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے اس کی وصولی کے تیس دن کے اندر اعلان کی توثیق کرتے ہوئے یا اس کے برعکس اس کے فیصلہ کے لیے رکھے گا۔
(4) جبکہ الیکشن کمیشن اعلان کی توثیق کردے تو شق (1) میں خولہ رکن ایوان کا رکن نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔
(5) الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے ناراض کوئی فریق، تیس دن کے اندر، عدالتِ عظمیٰ میں اپیل داخل کرسکے گا جو اپیل داخل کرنے کی تاریخ سے نوے دنوں کے اندر اس معاملہ کا فیصلہ کرے گی۔
(6) اس آرٹیکل میں شامل کسی امر کا کسی ایوان کے چیئرمین یا اسپیکر پر اطلاق نہیں ہوگا۔
(7) اس آرٹیکل کی اغراض کے لیے۔۔۔
(الف) ’’ایوان‘‘ سے وفاق کے تعلق سے قومی اسمبلی یا سینیٹ اور صوبہ کے تعلق سے صوبائی اسمبلی مراد ہے جیسی بھی صورت ہو؛
(ب) ’’افسرصدارت کنندہ‘‘ سے قومی اسمبلی کا اسپیکر، سینیٹ کا چیئرمین یا صوبائی اسمبلی کا اسپیکر مراد ہے، جیسی بھی صورت ہو۔
(8) مذکورہ بالا طور پر تبدیل کردہ آرٹیکل 63الف کا اطلاق اگلے عام انتخابات سے ہو گا جن کا دستور اٹھارہویں ترمیم) ایکٹ 2010ء کے نفاذ کے بعد انعقاد ہو گا: مگر شرط یہ ہے کہ آرٹیکل 63 الف کے احکامات بدستور نافذ رہیں گے۔
نشستوں کا خالی کرنا: 64۔ (1) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا کوئی رکن اسپیکر یا جیسی بھی صورت ہو، چیئرمین کے نام اپنی دستخطی تحریر کے ذریعے اپنی نشست سے مستعفی ہوسکے گا اور اس کے بعد اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔
(2) کوئی ایوان کسی رکن کی نشست کو خالی قرار دے سکے گا۔ اگر ایوان کی اجازت کے بغیر، وہ اس کے اجلاسوں سے مسلسل چالیس روز تک غیرحاضر رہے۔
ارکان کا حلف: (65) کسی ایوان کے لیے منتخب شدہ کوئی شخص اس وقت تک نہ اپنی جگہ سنبھالے گا اور نہ ووٹ دے گا جب تک کہ وہ ایوان کے سامنے جددل سوم میں مندرج عبارت میں حلف نہ اُٹھالے۔
اکاون وغیرہ کے استحققات:
(66)۔ (1) دستور اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے قواعد ضابطہ کار کے تابع، مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں تقریر کی آزادی ہو گی اور کوئی رکن، مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں تقریر کی آزادی ہو گی ۔
٭٭٭