کیا کہنے ہما ری قوم کے۔ یہ ہمیشہ آ قا ئوں کی متلا شی رہی۔ ایسے آ قا جو اسے کھا نے کو بے شک کچھ نہ دیں، مگر وقتاًفوقتاًحیران کر دینے کا ہنر جا نتے ہوں۔ حیران کر دینے کے اس عمل میں جہا ں کسی کے بھی کردار کے با رے میں سنسنی پھیلانے سے گر یز نہیں کیا گیا، وہیں ایسے خطو ط کا بھی ذکر کیا گیاجن کے مضمون سے تو کبھی آگا ہ نہیں کیا گیامگر انہیں ملک کی سلا متی کے لئے انتہا ئی خطر نا ک قرار دیا گیا۔ یا د ہے کہ سب سے پہلے اس قسم کا خط ذوالفقار علی بھٹو نے لہرایا تھا۔ پھر ایک قطر ی خط کا سنسنی خیز ذکر چلا۔ اور اب مو جو دہ وزیرِ اعظم ایک خط کو لہرا لہرا کر پوری قو م کو ایک غیر ملکی ساز ش سے متنبہ کر رہے ہیں۔تا ہم متجسس ذہن سوچ رہے ہیں کہ اب تو کب سے پر نٹ میڈیا کی جگہ الیکٹر نک میڈ یا لے چکا ہے تو اس خط کا کا غذ پہ لکھ کر روانہ کیا جا ناکیوں ضر وری تھا۔ تو اس سلسلے میں گذ شتہ دنو ںوفاقی وزرا، اسد عمر اور فواد چودھری کا یہ کہنا تھا کہ حکومت بیرونِ ملک سے بھیجا گیا دھمکی آمیز خط چیف جسٹس آف پاکستان کو پیش کرنے کو تیار ہے۔ اس خط کا ذکر پہلی دفعہ 27 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے جلسے میں اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازشوں اور دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کو شک ہو وہ اسے آف دی ریکارڈ یہ خط دکھا سکتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس خط کے ذریعے پاکستان کو شدید نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ آٹھ مارچ کے بعد کے واقعات اس حوالے سے معاملات کی کچھ تصدیق بھی کرتے ہیں۔ حکومت اس موقف سے صورتحال کی سنگینی کی وضاحت میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی؛ تاہم حکومت اس معاملے کو جس طرح ہینڈل کر رہی ہے اس سے غیرسنجیدگی جھلکتی ہے۔ یوں یہ مرا سلہ وہ نتا ئج پیدا کر نے سے قا صر نظر آ رہا ہے جس کی خا طر اسے منظر عام پر لا یا گیا ہے۔اصولی طور پر یہ مراسلہ فی الفور قومی سلامتی کمیٹی کے فورم پر آنا چاہیے تھا، جہاں متعلقہ ذمہ دار فریق اس صورت حال پر غور کرتے اور ایسی جسارت کرنیوالی طاقت، خواہ وہ کوئی ریاست ہے یا شخصیت یا دونوں، کو پاکستان کی جانب سے بغیر کوئی وقت ضائع کیے اس دھمکی کا منہ توڑ جواب دیا جاتا۔ اگر ایسا نہیں ہوسکا تو اسے حکومت کی نالائقی پر محمول کیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب نے 27 تاریخ کے جلسے سے قبل اس دھمکی یا سازش کی جانب کبھی اشارہ نہیں کیا جبکہ حکومت کے ذمہ دار عہدے دار یہ بتارہے ہیں کہ اس خط پر سات مارچ کی تاریخ درج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے کم از کم بیس روز اس دھمکی آمیز پیغام کو چھپائے رکھا۔ بے شک عوامی سطح پر اسے ظاہر نہ کیا جاتا مگر قومی اداروں کو بروقت اس معاملے میں شامل کرتے ہوئے موقف اختیار کرنے کی ضرورت تھی۔ اس معاملے میں تاخیر کی وجہ سے مذکورہ خط پر دوسرا نقطہ نظر بھی سامنے آنا شروع ہوگیا ہے اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ سب حکومت کا سیاسی بہکاوا ہے۔ کیا حکومت یہ نہیں دیکھتی کہ اس معاملے میں واضح قومی موقف میں تاخیر سے پیدا ہونے والے شبہات کا فائدہ انہی طاقتوں کو جارہا ہے جنہوں نے پاکستان کو یہ مراسلہ تحریر کیا؟ اب بھی وقت ہے کہ اس معاملے میں مزید کوئی وقت ضائع کیے بغیر اور مزید شبہات سے بچنے کے لیے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کیا جائے۔ قومی سلامتی سے جڑے معاملات میں کسی شش و پنج کی گنجائش نہیں۔ یہ معاملات سیاسی رسّہ کشی سے زیادہ اہمیت کے حامل اور زیادہ سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔ ذرا سوچیں کہ کسی دوسرے ملک میں ایسی صورت حال میں بھی کیا یہی طرزِ عمل اختیار کیا جاتا جو پاکستان نے اختیار کیا ہے کہ وزیراعظم ایک سیاسی جلسے میں جیب سے ایک تہہ شدہ پرچی نکال کر دکھادیتا کہ ملک کو باہر سے دھمکیاں دی گئیں ہیں اور جسے یہ دیکھنی ہوں میرے پاس رازداری میں آکر دیکھ لے؟ اگر ریاست کے وقار اور استحکام سے
جڑے معاملات کو بھی اس طرح دیکھنا ہے تو ادارے کے وجود کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ بدقسمتی سے حکومت اب بھی اس مبینہ دھمکی کو موزوں فورم پر اٹھانے کے بجائے اسے محض سیاسی بیانیے کا محرک بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ حکومت کی جانب سے ایسی کوئی کوشش یا بیان سامنے نہیں آیا کہ قومی سلامتی کے اعلیٰ فورم یا پارلیمان کی دفاعی کمیٹی میں اس مسئلے کو اُٹھایا جائے۔ یوں غیرمتعلقہ حلقے اس دھمکی کی ہوائیاں اڑاتے ہوئے اس کی سنجیدہ نوعیت اور سنگینی کا درست جائزہ لینے کے بجائے اس کوشش میں ہیں کہ اس سے حکومت کو سیاسی فائدہ حاصل ہو۔ حکومت کی سیاست اپنی جگہ مگر مراسلے کی دھمکی کی مخاطب حکومت نہیں ریاست پاکستان ہے۔ اگر مکتوب الیہ حکومت ہے تو پھر بھی یہ صرف اس سیاسی جماعت یا اس شخصیت کا انفرادی مسئلہ نہیں جن کے پاس اس وقت پاکستان کی عنان حکومت ہے، بلکہ یہ ریاست کا معاملہ ہے، لہٰذا اسے ریاستی اداروں کے ذریعے مروجہ طریقہ کار کے مطابق ہی دیکھا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومت ابھی تک اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ خط دکھانے کی پیشکش بھی ویسی ہی غیرمتعلقہ اور مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر ہے؛ چنانچہ اس کا امکان بہت کم ہے کہ چیف جسٹس حکومت کی اس پیشکش کو قبول اور خط دیکھنے کی خواہش کریں۔ اس کے بجائے حکومت کو قومی سلامتی کمیٹی کی طرف جانا چاہیے یا پارلیمان کا ان کیمرا سیشن بلایا جائے۔ حکومت نے اس سلسلے میں جو الزامات عائد کیے ہیں وہ بھی سنگین نوعیت کے ہیں، اس لیے انہیں بھی صرف سیاسی بیانیے کی نذر کردینا معقولیت سے بعید ہوگا۔ حکومت کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس سنگین نوعیت کے معاملے کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے حالات بدل جانے کے بعد بھول جانے سے دنیا پر پاکستان کی حکومت کا نہایت غلط تاثر جائے گا۔ یہ سمجھا جائے گاکہ حکومت جب سیاسی طور پر گھری ہوئی تھی تو اس نے توجہ ہٹانے اور سیاسی فوائد اٹھانے کے لیے ایک دھمکی آمیز خط کا ڈھونگ رچایا۔ یوں ہما ری دنیا میں جو بچی کھچی عز ت رہ گئی تھی، ہم اس سے بھی ہا تھ دھو بیٹھیں گے۔
چنانچہ ان حالات میں خط کے وجود، نوعیت اور اصلیت کا بارِ ثبوت حکومت پر ہے۔ آخر اسے پہنچانے والا کوئی واسطہ بھی تو ہوگا؟ حکومت کو ان سبھی سوالوں کے جواب دینا پڑیں گے۔ ابھی تک دفتر خارجہ اس سلسلے میں لاعلم کیوں ہے؟ کیا ذمہ دار ملک اپنے خلاف سازشوں کا اس طرح جواب دیتے ہیں؟