غلط فہمیاں…

غلط فہمیاں…

دوستو،غلط فہمیاں بعض اوقات بندے کو شرمندہ ہونے پر مجبور کردیتی ہیں۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بار ہم اپنے پیارے دوست کے ہمراہ برنس روڈ فوڈ سٹریٹ کے قریب سے گزررہے تھے کہ اچانک دوست کاگول گپے کھانے کا موڈ ہوا۔۔ سامنے ہی گول گپے کا سٹال تھا۔۔ ہم رک گئے اور جلدی سے دو پلیٹس گول گپوں کا آرڈردیا۔۔ گول گپے والا جب ہمارے آرڈر کی تکمیل کررہا تھا ،اور اپنے کام میں بزی تھا تو اچانک ہمارے پیارے دوست کے دل میں نجانے کیا خیا ل آیااور گول گپے والے سے سوال کرڈالا۔۔ بھائی تم لوگ واش روم استعمال کرنے کے بعد ہاتھ تو اچھی طرح دھوتے ہو نا؟ وہ برجستہ بولا۔۔بھائی جان ہمارا مرچ مسالے والا کام ہے۔ بعد میں دھوئیں یا نہ دھوئیں پہلے اچھی طرح دھو لیتے ہیں۔۔اسی طرح ایک بار باباجی نے شہد کھانے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگے، یہ مکھی کے منہ سے نکلتا ہے اس لیے کراہیت ہوتی ہے۔۔ یہ سن کر ہم نے انہیں ابلا ہوا انڈا پیش کیا تو وہ انہوں نے انتہائی دل جمعی سے کھایا۔۔تواب تو آپ لوگوں کو سمجھ آگیا ہوگا کہ ’’غلط فہمیاں‘‘ کیسی کیسی ہوتی ہیں؟ اور کس کس طرح سے انسان کو شرمندہ کرنے کا باعث بن جاتی ہیں؟؟ چلئے آج پھر اسی حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرلیتے ہیں۔۔
دلیر خان ایک سرکس میں شیروں کے ٹرینر کی حیثیت سے خدمات  انجام دے رہے تھے۔ ایک روز صبح ناشتہ کرتے ہوئے بیگم سے تکرار ہوگئی۔ دلیر خان کو غصہ آگیا اور وہ ناشتہ چھوڑ کر سرکس چلے گئے اور شام کو فیصلہ کیا کہ آج رات گھر نہیں جاؤں گا۔ چنانچہ وہ شیر کے ساتھ ہی پنجرے میں لیٹ گئے اور کمبل تان کے سو گئے۔ رات زیادہ گزر گئی تو بیگم کو تشویش ہوئی۔ موبائل پر رابطہ کیا لیکن دلیر خان گہری نیند سو رہے  تھے، فون سنا ہی نہیں۔ بیگم کی پریشانی عروج پر پہنچ گئی۔ انہوں نے کار نکالی اور خود ڈرائیو کرکے سرکس جا پہنچیں۔ دیکھا کہ دلیر خان شیر کے پنجرے میں خراٹے لے رہے ہیں۔ بیگم نے ایک چھڑی اٹھائی اور ڈرتے ڈرتے پنجرے کے 
قریب گئیں اور چھڑی اپنے شوہر کو چبھوتے ہوئے بولیں۔۔ ڈرپوک، بزدل کہیں  کے، یہاں چھپے بیٹھے ہو؟؟۔۔ایک سوئمنگ پول کا مالک نلکے پر نہارہا تھا۔۔کسی دوست نے پوچھ لیا، یار آپ کا تو اپنا سوئمنگ پول ہے،پھر نلکے پر کیوں نہارہے ہو؟؟ سوئمنگ پول کے مالک نے انتہائی سنجیدگی سے بڑے مدبرانہ انداز میں جواب دیا۔۔ روزانہ کا اوسط خرچ معلوم کرنے کے لیے ایک دن پول میں 30000 لیٹر پانی ڈالا اور شام کو چیک کیا تو 32000  لیٹر تھا۔۔وجہ معلوم نہ ہوسکی کہ دوہزار لیٹر کا اضافہ کیسے ہوا؟؟ بس اس دن سے سوئمنگ پول میں نہانے کا حوصلہ نہیں ہوا۔۔شوہر نے بڑے رومانٹک انداز میں جب بیوی سے پوچھا۔۔تم اتنی اچھی چٹنی کیسے بنالیتی ہو؟؟ بیوی نے بڑے لاڈ بھرے انداز میں کہا۔۔ چٹنی بناتے وقت آپ کا دھیان کرلیتی ہوں’’ کوٹنے ‘‘میں آسانی ہوتی ہے۔۔شوہر کو جب لگا کہ اس کی غلط فہمی دور ہوگئی ہے توشرمندگی سے بچنے کے لئے بیگم صاحبہ سے ایک اور سوال کرڈالا۔۔ تم نے مجھ میں ایسا کیا دیکھا جو شادی کے لئے ہاں کردی؟ بیوی نے برجستہ کہا۔۔ بچپن میں پھوپھی کے گھر آئی تھی جو اسی محلے قمیں رہتی تھی تب دیکھا تھا آپ کی ماں آپ کو گلی میں چپل سے مار رہی تھیں اور آپ چپ چاپ سر جھکائے کھڑے تھے۔تبھی میں نے سوچ لیا تھا شادی کروں گی تو اسی لڑکے سے۔۔
حاجی صاحب بیوٹی پارلر کے ویٹنگ روم میں بیٹھے میگزین پڑھ رہے تھے کہ ایک خوبصورت عورت آئی، آہستہ سے ان کا کندھا دبایا اور بولی۔۔ آئیے چلتے ہیں۔۔حاجی صاحب پسینہ پسینہ ہو گئے۔ ہڑبڑا کر بولے۔۔بہن، مَیں شادی شدہ ہوں اور یہاں پارلر میں میری بیوی بھی ساتھ ہے۔۔خاتون دانت پیستے ہوئے بولیں۔۔ارے غور سے دیکھو، یہ میں ہی ہوں!۔۔۔ایک لڑکے نے ٹرین میں سامنے والی سیٹ پر بیٹھی نقاب پوش لڑکی کی طرف جوس کا پیکٹ بڑھایا اس نے فوراً لے لیا اور پی لیا۔لڑکا بہت خوش ہوا اگلے ا سٹیشن پر اس نے جوس کے ساتھConrnatto پیش کی۔اسی طرح ہر سٹیشن پر لڑکا اس لڑکی کو اچھے سے اچھا جوس اور آئسکریم وغیرہ لا کر دیتا رہا۔ایک اور سٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک گنڈیریوں والا گاڑی میں داخل ہوا۔لڑکے نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔۔ کیا آپ گنڈیریاں پسند کریں گی۔۔؟۔۔نقاب پوش خاتون نے جواب دیا۔۔۔ نہ پتر نہ، میرے تا دند ای کوئی نئیں۔۔ایک بندہ جیسے ہی کام سے لوٹتا، اپنی بیوی کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتا تھا۔ عورت نے اپنے بھائی سے جا کر شکایت کی کہ میرے بندے کو سمجھاؤ، اسے ذرا سی حیا نہیں ہے۔ روز مجھ پر ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ بھائی نے بہن کی بات بہت غور سے سنی اور کہا۔۔ پانی کی ایک بوتل لے کر آؤ۔عورت بوتل لائی تو بھائی بوتل کا ڈھکن کھول کر کچھ دیر پانی کو دیکھتا رہا، کچھ پڑھتا رہا اور پانی میں پھونکتا رہا۔ بوتل کا ڈھکن واپس بند کر کے بہن کو بوتل واپس دیتے ہوئے کہا۔۔ یہ پانی کی بوتل گھرلے جاؤ۔ جیسے ہی خاوند گھر میں داخل ہو تو اس بوتل میں سے پانی کا ایک گھونٹ بھر لینا۔ یاد رکھنا کہ پانی تب تک حلق سے نیچے نہیں اتارنا جب تک تیرا خاوند اپنے کام کے کپڑے تبدیل نہ کر لے اور آرام سے بیٹھ کر چائے پانی نہ پی لے۔بہن نے اپنے گھر جا کر بھائی کی بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کیا اور وہ یہ جان کر بہت ہی حیران رہ گئی کہ اس کے خاوند نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔وہ روزانہ ایسا ہی کرنے لگی،پانی کی بوتل ختم ہوئی تو وہ ایک بار پھر بھائی کے گھر گئی، اسے سارا حال سنایا اور کہا کہ بھائی، پانی کی ایک بوتل اور بھی دم کر دو۔۔بھائی نے کہا۔۔ اب تجھے پانی کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں نے تجھے پانی پر کوئی دم کر کے دیا تھا۔ بس تجھے یہی بتانا مقصود تھا کہ جب تیرا خاوند شام کو کام سے تھکا ہارا گھر واپس لوٹے تو تھوڑی دیر کیلئے اپنی چونچ بند رکھ لیا کرو جب تک کہ وہ کچھ آرام اور سکون نہ لے لیا کرے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہے جو اپنا آدھا ’’گولہ بارود‘‘ لوگوں کی سوچ کو سلامی دینے میں ضائع کردیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں