اسلام آباد:سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو مشرف کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ پرویز مشرف مفرور ہیں اور دفاع کا حق ختم ہوچکا۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نے پرویز مشرف غداری کیس کا ٹرائل چلانے کیلئے پانچ ہدایات جاری کردیں۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ مشرف کی کسی بھی سچی یا جھوٹی میڈیکل رپورٹ کو قبول نہیں کیا جائے گا، اگر مشرف نہیں آتے تو 342 کے بیان کی ضرورت ہی نہیں، ٹرائل کورٹ پہلے سے دستیاب دستاویزات اور شواہد کی روشنی میں فیصلہ سنائے، مقدمے کو سپریم کورٹ میں زیر التوا رکھیں گے۔
پرویز مشرف دو مئی کو پیش ہوگئے تو انھیں تمام قانونی حقوق میسر ہونگے،2 مئی کو مشرف کی غیر حاضری کی صورت میں انھیں دفاع کے حق سے محروم رکھا جائے گا۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ان درخواستوں کو زیرالتواءرکھتے ہیں اور 2 مئی کے بعد ان درخواستوں پر سماعت کریں گے۔
سپریم کورٹ پاکستان میں سنگین غداری کیس کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ میرا موکل پاکستان آ کر خود اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتا ہے لیکن ان کی صحت کے مسائل سامنے آ رہے ہیں کیونکہ وہ کیمو تھراپی کراتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ کے آخری حکم کے مطابق سماعت 2 مئی کو ہونی ہے اور تحریری حکم کے مطابق 2 مئی تک سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مشرف کے وکیل نے ہی کی تھی۔
پرویز مشرف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سنگین غداری کیس جس قانون کے تحت چل رہا ہے اس کا سیکشن 9 بہت اہم ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سیکشن 9 سے متعلق کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ سیکشن 9 ان حالات میں قابل استعمال ہے یا نہیں۔
ہمارے قانون سازوں نے بھی کچھ سوچ کر ہی سنگین غداری کیس کی شق 9 پر کام کیا تھا۔سلمان صفدر نے کہا کہ اس کیس میں درخواست گزاروں کا اب کوئی کام نہیں رہا، وہ جو چاہتے تھے کہ غداری کیس پر ٹرائل شروع ہو وہ شروع ہو چکا ہے۔چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سابق صدر نے پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے ؟پرویز مشرف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ میں ذاتی ضمانت نہیں دے سکتا تاہم پرویز مشرف کی ہداہات ہیں کہ وہ پاکستان آ کر اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جب کہ ٹرائل کورٹ کے اکثر فیصلوں کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا تاہم اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ملزم کی غیر حاضری میں کارروائی آگے بڑھائی جا سکتی ہے یا نہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں ملزمان پیش ہوتے رہے ہیں لیکن اس کیس میں وفاقی حکومت نے اپنا راستہ خود بند کیا جب کہ اس وقت ہم کیس کا ٹرائل نہیں کر رہے ہیں۔ اس کیس میں ہمارا پہلا حکم اب بھی زندہ ہے۔