تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالغریز خلیفہ بنے تو بنو امیہ کا ظلم اپنے عروج پر تھا۔تاہم انہوں نے خلافت سنبھالنے کے بعد تقریباً دو سال کے عرصے میں ناصرف بنو امیہ کے ظلم کو ختم کر دیا بلکہ تین براعظموں میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ اور حکومت بھی ایسی کہ انکی حکمت عملی اور عدل و انصاف کے باعث تین براعظموں میں ایک بھی زکوٰۃ لینے والا شخص نہیں ملتا تھا ۔تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حکومت دمشق سے برصغیر ،کاشغر اور فرانس تک ہونے کے باوجود وہاں ظلم و زیادتی کی ایک داستان سامنے نہیں آئی ۔ ایک جانب تو لاکھوں مربع میل کے علاقوں میں کوئی زکوت لینے والا نہیں ملتاتھا وہیں اپنے گھر کا یہ عالم تھا کہ اکثر گھر میں فاقے رہتے ۔ حضرت عمر بن عبدالغریز کے 12 بچے تھے۔ دورحکمرانی کے دوران ایک عید کے موقع پر بچوں نے نئے کپڑوں کی فرمائش کی۔انکی زوجہ فاطمہ بنت عبدالمک نے حضرت عمر سے درخواست کی کہ بچوں کے لیےعید کے نئے کپڑے لینے ہیں ۔حضرت عمر نے فرمایا کہ اے فاطمہ میرے پاس تو پیسے بھی نہیں۔ حضرت فاطمہ نے درخواست کی کہ میرے پاس ایک تجویز ہے آپ اگلے ماہ کی تنخواہ پیشیگی میں لے لیں۔ میں ان پیسوں سے کپڑے سلائی کر کے اور دیگر محنت مزدری کر کے چولہا جلا لوں گئی، جس پر حضرت عمر نے ہاں میں ہاں ملائی اور اپنے خزانچی مزاحم کو بلوا کر ایک ماہ کی تنخواہ ایڈونس لینے کی درخواست کی ۔ جس پر مزاحم نے برجستہ کہا کہ اے امیر المومنین، کیا آپ مجھے اس بات کی گارنٹی دیں گے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے ؟ اگر ہاں تو میں فوری آپ کو ایڈونس تنخواہ دے دوں گا۔ جس پر حضرت عمر بن عبدالعزیر خاموش ہو گئے اور گھر آ کر اپنی زوجہ فاطمہ بنت عبدالمک سے کہا کہ بچوں کو کہہ دوکہ آپ کے والد آپ کو نئے کپڑے نہیں دلا سکتے۔انہی حالات میں عید آ پہنچی اور آپ سے بنو امیہ کے بڑے سردار بڑے شان و شوکت سے عید ملنے آئے۔ آپ نے اپنے بچوں سے عید ملی بچوں کے پرانے کپڑے دیکھ کر آپ نے بچوں سے کہا کہ آپ کو دکھ ہو گا کہ مجھے علم ہے کہ آپکے والد نے نئے کپڑے نہیں لے کر دئیے جس پر آپ کے ایک صاحبزادے عبدل ملک نے عرض کیا کہ نہیں ابا جان ہمیں آپ سے کوئی گلہ نہیں، بلکہ ہمیں فخر ہے اور ہمارے سر بلند ہیں کہ ہمارے والد نے خیانت نہیں کی۔ انکی زندگی کا ایک واقعہ کچھ اس طرح تھا کہ آپ گھر تشریف لائے تو بچیوں نے منہ کو ڈھاپ رکھا تھا جب آپ نے معلوم کیا تو آپ کی صاحبزادیوں نے عرض کیا کہ اباجان آج گھر کھانے کوکچھ نہیں تھا تو پیاز سے کھانا کھایا ۔جس پر آپ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا کہ میری بچیوں میں تمہیں بہت اچھے کھانے کھلا سکتاہوں مگر میں آپ کو وہ کھلا کرخیانت نہیں کر سکتا ۔چند سکوں کےلیے میں جنہم کی آگ نہیں خرید سکتا۔
یہ تھے ہمارے اکابرین جنہوں نے سنت رسولﷺ کو عملی جامعہ پہنایا اور تین براعظموں پر حکمرانی کے باوجود انہوں نے خیانت نہیں کی جبکہ آج جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشید ہ نہیں ۔آج کا اقتدار تو نہ صرف معمولی ہے بلکہ بہت چھوٹا سا ہے مگر حکمران سے لے کر عوام تک ہر کوئی اس ظلم کو کم کرنے کی بجائے مسائل کا رونا تو روتا ہے مگر کوئی اس کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کرتا۔
ملک میں مہنگائی کا جن ہے تو وہ طرز حکمرانی اور حکمرانوں کی مختلف ترجیحات کے باعث کنڑول نہیں ہو سکتا۔عدالتں ہیں مگر سائل کو انصاف کے لیے برسوں انتظار اوردربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ اگر کوئی حکمرانوں یا اشرافیہ سے انصاف مانگے تو وہ حساب مانگنے والوں کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے شخصیات کو مضبوط کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر وزیراعظم نہیں ہوں گے تو ملک ترقی نہیں کرے گا۔ ملکی نظام مفلوج ہو جائے گا۔آصف زرداری یا بلاول بھٹو نہیں ہوںگے تو پیپلزپارٹی نہیں چل سکے گی۔ نوازشریف نہیں تو مسلم لیگ نہیں ہو گی۔عمران خان نہیں ہوں گے تو تحریک انصاف کا پہیہ جام ہو جائے گا۔
حقیقت تو یہی ہے کہ ادارے باقی رہ جاتے ہیں شخصیات نہیں رہتی مگر یہاں جھوٹ کو ایسے میک اپ کر کے پیش کیا جا تا ہے کہ سبھی جھوٹ کو سچ گردانتے ہیں۔ ملک کے خودساختہ مسیحا جو وعدے کر کے آتے ہیں وہ وعدہ خلافی کے ساتھ اپنے منصب کا ناجائز استعمال کر کے خیانت کرتے ہیں اور اوپر سے آنے والی یہ ہوا پورے معاشرے کو تعفن زدہ کر دیتی ہے ۔ظلم کے یہ دیپ بجھانے کےلیے تو کوئی آگے نہیں آتا مگر اسے مزید تیز کرنے کےلیے تیل ضرور ڈالا جا تا ہے۔
اسلامی رفاہی مملکت کا خواب تو بزرگوں نے دیکھا مگر اسکو ہم سب نے کس طرح روند ڈالا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ عوام کا استحصال کرنے اور انہیں شعور سے میلوں دور رکھنے والے یہی مٹھی بھر اشرافیہ ہیں جو اپنے حلف سے خیانت تو کرتے ہیں مگر اس ڈھٹائی سے جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ جیسے وہ ہی سب مسائل کو حل کرنے میں کوشاں ہیں۔
بقول شاعر عوام حبیب جالب ، کسی بھی معاشرے میں دو ہی طبقے ہوتے ہیں ایک عوام کا طبقہ اوردوسرادرباری طبقہ ۔ حکمران کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو جب تک وہ ان درباریوں سے جان نہیں چھڑوائیں گے ملک ترقی نہیں کرے گا۔ عوام کو بھی اب سوچ لینا ہو گا کہ کب تک جہالت کے اندھیروں میں بھٹک کر اپنا مستقبل مزید تاریک کرتے رہنا ہےاور کب تک بے جان روح کی طرح حکمرانوں کے جھوٹ خیانت اور ظلم کو سہتے رہیں گے۔اب بھی وقت ہے کہ اس ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھٹرے ہوں ورنہ خوبصورت وعدے سراب سے آگے کچھ ثابت نہیں ہوں گے اور وہ اپنی قسمت کو ایسے ہی روتے رہیں گے جب تک وہ جھوٹ اور ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے کیونکہ عمر بن عبدالعزیز اب نہیں آئیں گے۔اس ظالم نظام کو بدلنے کے لیے خدارا اب تو جھوٹ،ظلم اور خیانت کو ترک کرنا ہوگا ورنہ ہم ماضی کی تاریک راہوں میں ہی کھوجائیں گے۔